• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کچھ روز قبل ہی دبئی سے کراچی پہنچا ہوں۔ میرے اِس بار دبئی جانے کا مقصد کورونا ویکسین کی دوسری Dose لگوانا تھا۔ میں نے 21 روز قبل بھی دبئی میں کورونا ویکسین کی پہلی Dose لگوائی تھی۔ کورونا ویکسین دو خوراک پر مشتمل ہوتی ہیں اور پہلی خوراک کے 21 روز بعد ویکسین کی دوسری خوراک دی جاتی ہے۔ ویکسین کا انجکشن دینے سے قبل ڈاکٹر آپ کا بلڈپریشر اور ٹمپریچر چیک کرتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ کہیں آپ کو کوئی سیریس مرض تو لاحق نہیں، جس کے بعد ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ویکسی نیشن کے بعد آپ کو کچھ دیر آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے کہ کہیں ویکسین کے کوئی منفی اثرات تو ظاہر نہیں ہورہے۔ اللہ کے کرم سے ویکسین کی پہلی اور دوسری Dose کے بعد مجھے کوئی سائیڈ ایفیکٹ کی شکایت نہیں ہوئی۔

دبئی میں کچھ ویکسی نیشن سینٹرز فائزر اور دیگر ممالک کی کمپنیوں کی ویکسین بھی لگارہے ہیں لیکن میں نے دوستوں کے مشورے پر چین کی ویکسین سائنو فارم لگوانے کو ترجیح دی جو کورونا کے خلاف 80فیصد متحرک ہے۔ یہ ویکسین ایک سرنج میں ہوتی ہے جسے لگانے کے بعد انجکشن کو ضائع کردیا جاتا ہے تاکہ سرنج دوبارہ استعمال نہ ہوسکے۔ یو اے ای کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کچھ ماہ قبل متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کورونا ویکسین کی پہلی Dose لگاکر کورونا ویکسی نیشن مہم کا آغاز کیا۔ کورونا ویکسین یو اے ای کے مقامی اور غیر ملکی شہریوں کو بلامعاوضہ لگائی جارہی ہے، اس ویکسین سے یو اے ای میں مقیم 5 ملین سے زائد مقامی اور غیر ملکی مستفید ہوچکے ہیں۔ ویکسی نیشن کی رفتار اتنی تیز ہے کہ یومیہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جارہی ہے اور اُمید ہے کہ بہت جلد یو اے ای میں مقیم ہر شخص Vaccinated ہوجائے گا۔کہتے ہیں کہ جب چیلنجز ہوتے ہیں تو اُس کے ساتھ مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ دبئی حکومت میڈیکل ٹورازم کے فروغ کی منصوبہ بندی کررہی ہے جس کے تحت غیر ملکیوں کو 3ہفتے کے پیکیج کی پیشکش کی جائے گی جس کی رو سے وہ دبئی آکر اپنی پسند کی ویکسی نیشن لگواسکیں گے۔ اس طرح اگر کوئی غیر ملکی فیملی یو اے ای میں قیام کرے گی تو اِس سے بحران کا شکار یو اے ای کی ایئر لائن، ہوٹلز اور ٹورازم انڈسٹریز کوبحالی میںمدد ملے گی۔

پاکستان میں بھی کچھ روز قبل چین سے 5لاکھ ویکسین خوراکیں عطیہ کے طور پر ملنے کے بعد بالاخر کورونا ویکسی نیشن مہم کا آغاز کردیا گیا۔ عطیئے کے طور پر ملنے والی ویکسین کو وفاقی حکومت اپنا بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے مگر ویکسی نیشن سست روی کا شکار ہے۔ دنیا بھر کے کئی ممالک کورونا ویکسی نیشن کا آغاز کئی ماہ قبل کرچکے ہیں اور ویکسین کے حصول کیلئے قطاریں لگی ہوئی ہیں مگر ہم اب تک اس معاملے میں سوچ بچار سے کام لے رہے ہیں جبکہ حکومت نے اب تک بڑے پیمانے پر ویکسین امپورٹ کرنے کا کوئی آرڈر عالمی مارکیٹ میں نہیں دیا۔ شاید حکومت ویکسین امپورٹ کرنے کے بجائے چین یا عالمی ادارۂ صحت سے بطور عطیہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔

حکومت نے نجی شعبے کی 4کمپنیوں کو کورونا ویکسین امپورٹ کرنے اجازت دے دی ہے تاہم واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ویکسین ابھی تک امپورٹ نہیں کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ دیگر امپورٹ شدہ ادویات کی طرح کورونا ویکسین کی قیمتوں پر بھی کنٹرول رکھا جائے تاکہ پرائیویٹ سیکٹر ویکسین کے نرخ میں من مانا اضافہ نہ کرسکے اور استطاعت نہ رکھنے والے بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ پاکستان کے برعکس بھارت میں ویکسی نیشن مہم تیزی سے جاری ہے جبکہ بھارت نے کورونا سے بچائو کی ویکسین مقامی سطح پر تیاری کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے۔ اگر ملکی آبادی میں سے 18سال سے کم عمر افراد کو الگ کرلیا جائے تو ہمیں 15 کروڑ ویکسین کی ضرورت پڑے گی جس کیلئے کثیر زرمبادلہ اور مدت درکار ہوگی۔ ملکی آبادی کی معاشی حالت کے پیش نظر پاکستانی سائنسدان بھی مقامی سطح پر کورونا ویکسین کی تیاری یقینی بنائیں یا پھر چین کی کمپنی سے Under Licence مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری یقینی بنائی جائے۔

دنیا بھر میں اس طرح کی افواہیں بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ کورونا ویکسین سے DNA متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں اور خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ کچھ اسلامی ممالک میں تو ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ ویکسین میں خنزیر (سور) کے اجزاء شامل ہیں تاہم انڈونیشیا کی علماء کونسل اور یو اے ای کی فتویٰ کونسل نے اِن تمام افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کورونا ویکسین کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ پاکستان کے علماء بھی اِن افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے ویکسی نیشن مہم کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ پولیو مہم کی طرح کورونا ویکسی نیشن مہم بھی تنازعات کا شکار نہ ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین