• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالانکہ غیر متوقع طور پر پی پی سندھ سے بڑی اکثریت میں کامیاب ہوئی ہے اس کے باوجود سندھ کے عوام خوفزدہ ہیں کہ ایک بار پھر پی پی کی حکومت گزشتہ پانچ سال کے دوران اختیار کی گئی مفاہمتی پالیسیوں کو جاری نہ رکھے جنہیں سندھ کے عوام سندھ کے بنیادی مفادات کے منافی قرار دیتے رہے ہیں۔ کئی مبصرین 11 مئی کو ملک بھر میں ہونے والے انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین اور انتہائی غیر شفاف انتخابات قرار دے رہے ہیں‘ اسی طرح سندھ اور خاص طور پر کراچی میں ہونے والے انتخابات پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور تقریباً ہر پارٹی ان انتخابات پر اعتراضات کر رہی ہے اس کے باوجود ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان نتائج کو کڑوی گولی کے طور پر قبول کرکے جمہوری عمل کو جاری رکھا جانا چاہئے کیونکہ جمہوری عمل کے منقطع ہونے سے ملک کو جو نقصان ہو سکتا ہے وہ شاید ان غیر شفاف انتخابات کو رد کرنے سے زیادہ ہو‘ بہرحال ایک بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ الیکشن کمیشن 2013ء کے انتخابات شفاف طریقے سے کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔ انتخابات کے دن جب کراچی کے کئی حلقوں میں 12 اور ایک بجے دن تک پولنگ شروع نہ ہوئی اور کئی اور بے قاعدگیوں کی اطلاعات آئیں تو ایک مرحلے پر ایک ٹی وی چینل پر چیف الیکشن کمشنر کے بیان کے حوالے سے یہ ٹیلی کاسٹ ہونا شروع ہوا کہ ہم شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہوگئے ہیں‘ اس اعلان کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ ان بے قاعدگیوں کو فوری طور پر روکنے کے سلسلے میں اعلانات ہوں گے یا چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں گے مگر نہ ان بے قاعدگیوں کو دور کیا گیا اور نہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوئے۔ اس کے برعکس ایک دو گھنٹے بعد الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس میں ان بے قاعدگیوں کو کسی نہ کسی طرح Legtimize کیا‘ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے بیانات شاذ و نادر ہی سننے کو ملے‘ ایسا لگا کہ عملی طور پر الیکشن کمیشن کا چارج چیف الیکشن کمشنر کے بجائے کمیشن کے سیکریٹری نے سنبھال لیا ہے۔ یہ کیوں ہوا اور اس کی کیا وجہ تھی اس کی آج تک کسی نے وضاحت نہیں کی‘ اس کے علاوہ بھی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن اور کچھ دیگر حساس اداروں کے کردار کے بارے میں بھی لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں جو ابھی تک جواب طلب ہیں۔ یاد رہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اور خاص طور پر کراچی کی اکثر پارٹیاں مطالبہ کرتی رہیں کہ کراچی میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں اور ہر پولنگ بوتھ میں فوجی سپاہی ہونا چاہئے مگر چیف الیکشن کمشنر نے ان جماعتوں کی ایک نہ سنی مگر انتخابات سے چند دن پہلے چیف الیکشن کمشنر نے خود فوج کے سربراہ پر زور دیا کہ کم سے کم کراچی میں انتخابات کے دوران فوجی پولنگ کی نگرانی کریں مگر اب کی بار فوج کی طرف سے یہ بات نہیں مانی گئی مگر انتخابات کے بعد کراچی کے حلقے 250 کے 43 پولنگ اسٹیشنوں پر ہونے والے انتخابات مکمل طور پر فوج کی نگرانی میں ہوئے تو پھر انتخابات کے وقت ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔
یہ رائے بھی ابھر رہی ہے کہ ملک بھر میں انتخابات پہلے سے تیار کئے گئے ایک بلیو پرنٹ کے تحت کرائے گئے اور یہ پہلے سے طے تھا کہ کے پی صوبہ پی ٹی آئی کے حوالے کیا جائے‘ پنجاب اور مرکز پی ایم ایل (ن) کے حوالے کیا جائے‘ سندھ پی پی اور ایم کیو ایم کے حوالے کیا جائے اور بلوچستان میں حسب روایت ایک بار پھر چوں چوں کا مربہ ہو۔ لوگوں کو اب ان اطلاعات پر کسی حد تک یقین آنے لگا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے مفادات کا تقاضا ہے کہ ان Pre -Poll Tailoring کو بھی قبول کیا جائے تاکہ جمہوری عمل جاری رہے۔ جہاں تک سندھ سے پی پی اور ایم کیو ایم کو ملنے والے ہیوی مینڈیٹ کا تعلق ہے تو اب اس بات میں کوئی دو رائیں نہیں ہے کہ اگر کراچی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں نہ ہوتیں اور جماعت اسلامی اور کچھ دیگر جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے دوران بائیکاٹ نہیں ہوتا تو شاید اس بار کراچی کے انتخابات کے نتائج ماضی کے مقابلے میں کسی حد تک مختلف ہوتے۔ علاوہ ازیں اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی ایک طاقتور انتخابی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جہاں تک کراچی کے سوا سندھ کے باقی علاقوں کا تعلق ہے تو چونکہ سندھ کے لوگ اس بار پی پی سے خفا تھے لہٰذا توقع یہ کی جارہی تھی کہ اس بار پی پی ماضی کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کرسکے گی مگر شایدآخری وقت میں سندھ کے عوام نے ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ سے پی پی کے امیدواروں کو کامیاب کرنے کا فیصلہ کیا‘ اس کے علاوہ پی پی کی اتنے بڑے پیمانے سے کامیابی کے کچھ اور بھی چھوٹے بڑے اسباب ہوسکتے ہیں‘ مثال کے طور پر دس جماعتی اتحاد صوبے بھر میں عملی اتحاد کا مظاہرہ نہ کر سکا‘ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ قوم پرستوں اور دائیں بازو کی جماعتوں اور پیروں کے اتحاد کو سندھ کے عوام نے قبول نہیں کیا‘ ان عناصر کے مطابق دس جماعتی اتحاد کے بجائے فقط قوم پرست جماعتیں اتحاد کے ذریعے انتخابات لڑتیں تو اگر یہ اتحاد انتخابات ہار بھی جاتا تو بھی ان کا مستقبل روشن ہوتا‘ یہ عناصر اس بات کی بھی نشاندہی کررہے ہیں کہ قوم پرستوں کی طرف سے انتخابات سے پہلے نہ مشترکہ سندھ ایجنڈا جاری کیا گیا اور نہ سندھ کے بارے میں کوئی مشترکہ پروگرام جاری کیا گیا تھا۔
یہ دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں سے کچھ قوم پرست عوام سے اس حد تک مایوس ہوگئے ہیں کہ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے سندھ کے عوام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کرکے قوم پرست اپنی راہیں مسدود کررہے ہیں‘یہ الیکشن روپے کے ذریعے لڑا گیا‘ کہا جاتا ہے کہ ریٹرننگ افسروں اور پریذائیڈنگ افسروں کے دفاتر خرید و فروخت کے اڈے بنے رہے‘ اس بات پر جتنا افسوس کیا جائے تھوڑا ہے۔ بہرحال انتخابات جیسے بھی ہوئے اب مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کے سلسلے میں سرگرمیاں زوروں پر ہیں‘ سندھ میں پی پی کے پاس اتنی اکثریت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اکیلی حکومت بناسکتی ہے مگر اطلاعات کے مطابق پی پی کی قیادت نے ایم کیو ایم سے حکومت میں شامل ہونے کے سلسلے میں رابطہ قائم کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل ہونے یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے سلسلے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا‘ شاید اس بار پی پی حکومت میں شامل ہونے کے لئے ایم کیو ایم کے پاس کچھ زیادہ کڑی شرائط ہیں لہٰذا وہ فوری طور پر فیصلہ کرنے سے پرہیز کر رہی ہے جہاں تک سندھ کے عوام کا تعلق ہے تو وہ چاہتے ہیں پی پی پچھلی مفاہمت ترک کرے اور اکیلی حکومت بنائے کیونکہ سندھ کے عوام کو پی پی کی گزشتہ پانچ برسوں کی مفاہمت اور دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کا کافی کڑا تجربہ ہے‘ عوام چاہتے ہیں کہ اس بار پی پی حکومت نہ صرف کرپشن سے دور رہے بلکہ طرز حکمرانی کو درست کرے مگر مفاہمت کے نام پر سندھ کے حساس مفادات کو مزید تین وال نہ کرے۔ سندھ کے لوگ خاص طور پر پرویز مشرف کے دور کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مزید خراب کرکے آرڈیننس جاری کرنے سے کافی خفا ہیں‘ حالانکہ انتخابات سے پہلے پی پی حکومت نے یہ نظام جسے سندھ میں لوکل گورنمنٹ کا دہرا نظام کہتے ہیں کو ترک کردیا تھا مگر اس وقت بھی یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی حکومت ایک بار پھر یہی نظام لائے گی‘ دو دن قبل سندھ کے لوکل گورنمنٹ کے سابق وزیر آغا سراج درانی کے اس اعلان کے بعد کہ ختم کئے جانے والا لوکل گورنمنٹ سسٹم دوبارہ بحال کیا جائے گا سندھ بھر میں تشویش کی شدید لہر پیدا ہوگئی ہے‘ اس کے علاوہ سندھ کے عوام سمندر میں سندھ کے جزیروں کو امریکہ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کئے جانے کے بھی خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ پی پی کے صدر سید قائم علی شاہ کی طرف سے اعلان کے بعد سندھ کے عوام میں تشویش اور بڑھ گئی ہے‘ سندھ کے لوگ چاہتے ہیں کہ اگر اس بار صاف اور شفاف کردار کے لوگوں کو وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزراء نہیں بنایا جاتا اور کابینہ وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں جاکر شہیدوں کی قبروں کے سامنے کرپشن نہ کرنے کا حلف نہیں اٹھاتی اور اگر پی پی اکیلی حکومت نہیں بناتی، اگر لوکل گورنمنٹ کا دہرا نظام واپس بحال کرتی ہے‘ سندھ کے جزیرے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرتی ہے تو شاید سندھ کے عوام اٹھ کھڑے ہوں‘ اس کے بعد سندھ کے لوگ کوئی بھی راہ اختیار کرسکتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین سندھ کے عوام کے اس مینڈیٹ کو پی پی اور موجودہ سسٹم کے لئے ایک الٹی میٹم بھی قرار دے رہے ہیں۔
تازہ ترین