• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑی خبر تو ہے مگر بریکنگ نیوز نہیں ہے کہ سب کو پتہ تھا کہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے لئے اس وقت شہباز شریف ہی مضبوط اور اہل امیدوار ہیں۔ خبر تو یہ ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت اور پارلیمانی پارٹی نے ان کو صوبہ کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا ہے کہ ان کے علاوہ نہ ہی کوئی اور مستحق تھا اور نہ ہی امیدوار اگر یہ کہا جائے کہ ساری انتخابی چومکھی شہباز میاں ہی نے لڑی ہے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے ان میں پنجاب کو سب سے بڑے صوبہ کی حیثیت سے ”بڑے بھائی“ کا کردار بھی ادا کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کا ”برادر خورد“ چاروں صوبوں کے درمیان بڑے بھائی کا کردار کس خوش اسلوبی سے ادا کرتا ہے۔ اگر ماضی کی کارکردگی کو مان لیاجائے تو وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”بڑا بھائی“ چھوٹے بھائیوں کو نہ صرف ان کا حق دلوائے گا بلکہ ان سے شفقت بھی کرے گا اگر پنجاب کو کچھ قربانی بھی دینی پڑی تو اس سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ کسی ایک صوبہ کے وزیراعظم کی بات میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حقیقت صدر ہو یا وزیراعظم سارے ملک کا ہوتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ اگرچہ اکثریتی جماعت کے منصب پر ہوتا ہے لیکن حلف اٹھانے کے بعد وہ بھی سب کا ”خادم“ بن جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ اس کا تعلق ن لیگ سے ہے یہ درست مگر اس نے خدمت کو بلاامتیاز سارے صوبہ اور اس کے عوام کی کرنی ہے۔
2013ء کے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قوم کو ”اچھے برے“ کی بڑی پہچان ہے۔ اب اسے نفرتوں کا ذکر کر کے ورغلایا نہیں جا سکتا۔ جس طرح کا منڈیٹ تقسیم ہو کر سامنے آیا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب کسی نے حکمران جماعت کو صوبہ یا وفاق میں ”من مانی“ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اور نہ ہی اب ”لوٹ مار“ کلچر کو جاری رکھا جا سکے گا۔ منتخب وزیراعظم تو مفاہمت چاہتے ہیں تاکہ یکسو ہو کر ملک و قوم کو درپیش بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ مرکز میں عددی اکثریت کے باوجود جے یو آئی (ایف) اور مسلم لیگ (ف) کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ شہباز میاں کی یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور یہ وعدہ ہر صورت پورا ہو گا کہ ”لوٹ مار“ کی ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا میرٹ پر جس سختی سے عملدرآمد کیا جانا ہے سابقہ دور اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ داماد نے زیادتی کی تو گرفتار کروانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ الیکشن سے قبل پڑھے لکھے بزرگوں کے ایک طبقہ کا خیال تھا کہ شہباز شریف کو پانی اور بجلی کا وفاقی وزیر بنا دیا جائے تو وہ ”لوڈ شیڈنگ“ کے عذاب سے بڑی حد تک نجات دلا دیں گے۔ جس طرح میاں صاحب ایک پروجیکٹ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں دن رات ایک کر دیتے ہیں اور اسے مکمل کر کے ہی دم لیتے ہیں۔
لاہور میٹرو اس تازہ مثال ہے وہ اس جذبہ، لگن سے بقول میاں نواز شریف لوڈ شیڈنگ کی مت مار دیں گے لیکن موجودہ سنگین حالات کا تقاضا ہے کہ صوبہ پنجاب میں کسی نئے وزیر اعلیٰ کا تجربہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ جو مسائل، مصائب ملک کو درپیش ہیں انہی کا صوبہ پنجاب کو سامنا ہے۔ اگرچہ یہ اچھا ہوا صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے حکمرانی کے لئے کسی کے سہارے یا امداد کی ضرورت نہیں کیونکہ سابقہ دور وزارت اعلیٰ میں شہباز شریف کو ”فری ہینڈ“ نہیں تھا۔ گورنر راج نافذ کر کے ”سیاسی سوداگر“ نوٹوں کے تھیلے لئے گاہکوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ صوبہ کے مرحوم گورنر کا کہنا تھا کہ گورنر ہاؤس کے باہر ارکان قطار لگا کر کھڑے ہوں گے لیکن وہ اور ان کے رفقاء ” ڈی فیکشن گروپ“ کا ایک رکن بھی نہ توڑ سکے۔ اور یہ کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے صوبہ میں حکومت کی راہ میں ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بلاجواز الزامات عائد کئے اور کئی تو ایسے تھے جن کی گز بھر کی زبانیں تھیں۔ لیکن میاں شہباز شریف نے ”سچے اور پکے“ ”خادم“ بن کر صوبہ کو اڑوس پڑوس میں بھڑکتی آگ سے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ بڑے بڑے کام بھی کئے۔ جس کا صلہ اب عوام کے مینڈیٹ کی صورت میں ملا ہے۔
وفاقی حکومت نے 100 دن کے ایجنڈا کا اعلان کیا ہے۔ میاں شہباز شریف تعلیم کے علاوہ دوسرے شعبوں کے لئے بھی ”ہنگامی ریلیف“ کا اعلان ہی نہیں اس پر عملدرآمد بھی کریں۔ یہ درست کہ تحریک انصاف نے نوجوانوں کو متحد کیا ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جائے کہ لیپ ٹاپ سولر لیمپ تقسیم کر کے اس اچھی تحریک کی ابتداء میاں شہباز شریف نے کی تھی۔ ملک اور صوبہ ایک طرف لوڈ شیڈنگ کے ناقابل برداشت عذاب سے دوچار ہے۔ دوسری جانب ملک بے روزگاری، مہنگائی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ تعلیم و ترقی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے۔ میاں شہباز شریف کو ان چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان کو صوبہ کے وزارت اعلیٰ کی مبارکباد اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان بحرانوں سے نکلنے کا حوصلہ اور توفیق عطا فرمائے۔
(آمین) لیکن اس بات کا خیال رہے کہ نقاب پہن کر آنے والوں سے ہوشیار رہیں ”برے وقتوں“ کے ساتھیوں کو فراموش نہ کریں!!
اور آخر میں مصطفی زیدی کا ایک شعر !
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
تازہ ترین