• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں تماشے جاری ہیں اور ذرا سوچئے، دو بڑے مقدمے عدالتوں میں نہیں، سڑکوںپر چل رہے ہیں۔دلّی میں بے شمار پریشان حال کسان اپنے سارے کام دھندے چھوڑ کر سڑکوں پر بیٹھے ہیں اورحکومت کے فیصلوں کو ٹھکرا رہے ہیں۔ کیسی عجیب صورت حال ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ جو نئے قانون لانا چاہتی ہے اس سے کسانوں کی قسمت بدل جائے گی ۔ کسان کہتے ہیں کہ یہ نئے قانون انہیں بھوکا ماردیں گے۔ مہینوں سے سڑکوں پر پڑاؤ ڈالے کسانوں اور حکام کے مذاکرات کے دس دور ہو چکے ہیں جو سارے کے سارے بے نتیجہ رہے۔یہ کشا کش اتنی شدیدہے کہ کوئی غیر جانب دار مبصر کسی حال یہ طے نہیں کرسکتا کہ کون حق پر ہے، حکومت یا خون پسینہ ایک کرنے والے سدا کے مظلوم کسان ۔

سڑکوں پر دوسرا بڑا مقدمہ ہندوستا ن کے شانے سے شانہ ملائے ہوئے ملک برما میں چل رہا ہے جہاں صورت حال یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر بڑا الیکشن ہوا اور برسر اقتدار جماعت بھاری اکثریت سے جیت گئی مگر وہ جو کسی نے کہا اور خوب کہا کہ انتخابات ہر ایک کو راس نہیں آتے۔کہیں سے وہی جانی پہچانی آواز بلند ہوئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔پھر یوں لگا جیسے طے شدہ منظرنامے میں پہلے سے لکھا ہو۔ دھاندلی کے الزام پر برما کی فوج سنجیدہ ہوگئی اور اس نے انتخابات میں جمہوریت کے ڈنکے بجانے والوں کو پکڑ کر جیل میں ڈالا اور دو اعلان کئے، ایک یہ کہ یہ کوئی فوجی انقلا ب نہیں ہے جسے عام زبان میں ’کو‘کہا جانے لگا ہے اور حکم بھی جاری کردیا کہ اس کارروائی کو ’کو‘ نہ کہا جائے۔ اور دوسر ااعلان بھی وہی جانا پہچانا اعلان تھا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، ایک سال بعد شفاف اور غیر جانب دارانہ الیکشن کرائے جائیں گے۔

یہاں تک تو وہی کہانی تھی جس کے ہم میں سے بہت سے آگاہ بھی ہیں، واقف بھی اور عادی بھی۔اس کے بعد جو ہوا وہ شاید برمی فوج کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ہوا یہ کہ لوگوں نے یا ہو کا نعرہ لگایا اور سڑکوں پر نکل آئے۔کتنے ہی رو ز ہوگئے خلقت سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ اسے خوف زدہ کرنے کے لئے فوج والے اپنے زور بازو کی نمائش کر رہے ہیں مگر عوام اس سے مرعوب ہونے کے لئے تیار نہیں۔ احتجاج زور پکڑتا جارہا ہے جس میں تشدد بھی نظر آنے لگا ہے اور بارہا یوں لگا کہ فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چلا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے ایسا اعلان کیا جو پہلے کم ہی سنا گیا ہوگا۔اقوام متحدہ نے برمی فوج کو خبردار کیا کہ پُر امن احتجاج پر اگر تشدد کیا گیا تو برمی فوج کی خیر نہیں۔

اقوام متحدہ کے اس اعلان پر ہمارے چہرے پر جو خفیف سا تبسم آیا وہ بے سبب نہ تھا۔ خدا کی شان کہ اقوام متحدہ بھی گویا کیل کانٹے سے لیس ہوئی۔ حیرت ہے ا س عالمی ادارے نے برما والوں کو اتنی سخت دھمکی دے دی لیکن اس کو دلی کی سڑکو ں پر مہینوں سے خوار ہونے والے کسانوں کی حالت زار کا خیال نہ آیاکہ ان کی بھی دادرسی ہونی چاہئے۔

اس میں سارا قصور لفظ ’جمہوریت‘ کا ہے۔ جدھر دیکھئے ،جہاں دیکھئے، ہر طرف جمہوریت کی رٹ لگی ہوئی ہے۔انسان کے ذہن میں جمہوریت کا تصور بٹھا دیا گیا ہے کہ اس میں خلق خدا راج کرے گی۔ اس میں جو بھی ہوگا عوام کی مرضی سے ہوگا۔ خوب لگے یہ نعرے مگر جب جب آزمائش کی گھڑی آئی جمہوریت حوصلہ ہار بیٹھی۔ جب کبھی لوگ اپنا حق مانگنے نکل کھڑے ہوئے تب اقتدارسے چمٹے ہوئے ارباب اختیار نے اپنے ترکش سے زہر میں بجھے ہوئے تیر نکال لئے۔ساری جمہوریت دھری کی دھری رہ گئی اور عوام عوام کا فلک شگاف نعرہ کہیں خاک میں مل گیا۔

ایک بات طے ہے کہ جب کبھی حالات انسان کے مزاج کے مطا بق نہ ہوں تو لوگوں کی قوت برداشت زائل ہونے لگتی ہے۔ وہ فیصلے چاہتے ہیں، اب اور ابھی۔ مگر سیاست کار لوگ اپنے پرانے حربے نکال لاتے ہیں اور معاملے کوملتوی اور موخر کرنے کی جتنی چالیں دنیا میں رائج ہیں،سب کوبروئے کار لے آتے ہیں۔ اسی بے صبری کی وجہ سے لوگ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔وہ گھروں میں بیٹھ کر بھی اپنی بے چینی کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن ان پرفوری انصاف کی دھن سوار ہوتی ہے جو بنی بنائی انسانی فطرت ہے جس کا کسی کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔

سڑک پر نکل کر انصاف کا مطالبہ کرنے کی دو تازہ مثالیں روس اور ہانگ کانگ کی ہیں۔دونوں کے بدن میں کمیونزم کے جراثیم ابھی تک تیر رہے ہیں۔ حکم نافذ کرنے کا وہ اشتراکیت کا رویہ لاکھ کہیں کہ ختم ہوا، نہیں ہوا۔ روس میں مخالفوں کا صفایا کرنے کی تدبیر خوب رائج ہے اور اب تک کتنے ہی روسی طرح طرح سے زہر دے کر ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ اس بار بھی ایک سرکردہ مخالف کو زہر دیا گیا۔ اس کا جرمنی میں علاج ہوگیا اوروہ جو ں ہی واپس آیا، قید و بند کا نشانہ بنا۔ اس پر عوام سڑکوں پر نکل آئے لیکن ان کی آواز ارباب اختیار کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔بالکل یہی کمیونزم کے دنوںمیں ہوتا تھا۔

یہی حال ہانگ کانگ کاہے۔ سو سال تک وہ پٹے پر برطانیہ کے پاس رہا اور ایک صدی تک جزیرے کے باشندے ایک آزاد طرز زندگی کا لطف اٹھاتے رہے۔ ہانگ کانگ دوبار ہ چین کو ملا تو طے یہ ہوا کہ وہاں کے باشند ے جس انداز سے زندگی گزارنے کے عادی ہیں اسے یک سر تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا اور چین نے وہاں بھی مطلق العنانی کو رواج دینے کی کارروائی شروع کر دی۔ آج بھی وہاں آئے دن سڑکوں پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اور آخری بات۔ برما ہویا ماسکو ، بیروت ہو یا ناروے ، حالات سے تنگ آکر جو لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں،ہم انہیں ٹیلی وژن پر دیکھ رہے ہیں، اکثر جوان ہیں۔ ان کا خون زیادہ زور مارتا ہے، ان کا ذہن زیادہ جدید ہے، ان کی سوچ سمجھ پرانے وقتوں سے جدا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا اب کس ڈھب پر چلے گی، اس کا فیصلہ نوجوان کریں گے۔اور آخری بات کی آخری سطریں۔زمانے یوں اپنی شباہت بدلیں گے تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب فاقہ زدہ محنت کش سڑکوں پر نکلے گا ۔وہی انصاف کا دن ہوگا۔

تازہ ترین