• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کا تماشہ جاری ہے کہ ووٹنگ اوپن ہو یا خفیہ ؟دھاندلی کو روکنے کیلئے بندوبست ہو رہا ہے مگر جب کوئی دھاندلی کرنے پر تل جائے تو پھر اسے کون روک سکتا ہے، جب سسٹم دھاندلی کرنے والوں کا ساتھی بن جائے تو پھر احتجاج یا خاموشی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا ۔

قومی سیاست میں 77 ، 85 ، 88 ، 90 ، 97، 2002 ، 2013 ، اور 2018کے انتخابات میں دھاندلی کا شور بلند ہوا، سینیٹ کے الیکشن تو ہر مرتبہ کہیں نہ کہیں سے خریدوفروخت کی کہانیاں سامنے لے آتے ہیں ۔اب تو ویڈیو آنا شروع ہو گئی ہیں، یہ سارے مناظر جمع ہو کر پچھلے دنوں ایک ہی الیکشن میں سامنے آئے۔

خواتین و حضرات! گورنمنٹ کالج لاہور ہماری مادر علمی ہے۔اس ادارے نے بڑے شاندار لوگ پیدا کئے ہر شعبے کو اعلیٰ افراد دیئے اس ادارے کی عظیم روایات ہیں۔گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طالب علموں کی ایک یونین ہے اسے اولڈ راوین یونین کہا جاتا ہے، اس کے الیکشن کا دن ایک طرح سے فیسٹیول ہوتا ہے ، اولڈ راوینز اس میلے میں شرکت کرتے ہیں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے، الیکشن تو ایک بہانہ ہوتا ہے مگر اس ماحول میں میل جول حسن کو دوبالا کر دیتاہے۔ اس سے پہلے الیکشن ہمیشہ شفاف ہوتے رہے ،ہارنے والا کھلے دل سے شکست تسلیم کرکے جیتنے والے کو مبارکباد دیتا رہا ،کبھی کسی نے شکوہ نہیں کیا تھا یہاں ڈاکٹر نذیر احمد اور پطرس بخاری جیسے لوگ پرنسپل رہے ۔ایک مرتبہ کالج کے ایک پروفیسر امان اللہ ورک الیکشن لڑکر جیت گئے تو پھر یہ طے ہوا کہ کالج کا کوئی بھی استاد الیکشن نہیں لڑے گا مگر اس مرتبہ الیکشن میں کالج کے استاد ہی استادی دکھا گئے ۔وہ چند بیوروکریٹس کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے ۔میں قومی سیاست میں سیاست دانوں سے دھاندلی کے جتنے حربے سنتا رہا وہ سارے حربے اولڈ راوین یونین کے حالیہ الیکشن میں استعمال ہوئے ۔اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے تو میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے کہتا کیونکہ چوہدری صاحب مجھے اور سہیل وڑائچ کو استاد کہتے ہیں۔

دراصل اس الیکشن کو ایک پولیس والے نے اپنی گندی سیاست سے متنازعہ بنایا۔انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں اس نے پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ کو استعمال کرنا شروع کیا تو میں نے اپنے اولڈ راوین دوست آئی جی پنجاب انعام غنی سے بات کی اور کہا کہ ایک پولیس افسر ہماری مادر علمی کی شاندار روایات کو داغدار کر رہا ہے اسے روکیں۔ انہوں نے بھی روایات کے تقدس کا پاس کیا اور مجھے کہا کہ لاہور میں موجود کسی آدمی کو اے آئی جی پنجاب کے پاس بھیجیں۔میں نے الیکشن لڑنے والے ایک امیدوار الطاف سکھیرا کو محض اس لئے بھیجا کہ وہ سابق آئی جی اولڈ راوین مشتاق سکھیرا کے چھوٹے بھائی ہیں اور پولیس کے معاملات کو سمجھتے ہیں ۔اے آئی جی پنجاب شہزادہ سلطان کو تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔شہزادہ سلطان بھی راوین ہیں انہوں نے بھی کہا کہ پولیس کا استعمال بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے ہی خیالات لاہور کے سی سی پی او، اولڈ راوین غلام محمود ڈوگر کے تھے مگر خفیہ والے تو پھر خفیہ والے ہوتے ہیں خفیہ پولیس والے نے اپنی کارروائیاں جار ی رکھیں۔اس نے انتخابی مہم تو الگ پولنگ ڈے پر بھی پولیس کا بھرپور استعمال کیا، یہی وہ رویہ تھا جس پر جی سی کا ٹاور رویاجس پر شاندار روایات آنسو بہاتی رہیں۔

اس الیکشن میں جسٹس(ر) احمد فاروق شیخ چیف الیکشن کمشنر تھے ان سے کالج انتظامیہ نے نہ پولنگ اسکیم پر کوئی بات کی اور نہ ہی پولنگ کے عملے کو چیف الیکشن کمشنر سے ملوایا۔ جب صبح دس بجے یہ شکایت سامنے آئی کہ خفیہ پولیس والے کے پوسٹرز اور بینرز کالج کے باہر لگے ہوئے ہیں تو شکایت کنندہ نے رولز کی کاپی دی، خیر چیف الیکشن کمشنر نے دو منٹ کے اندر پوسٹرز اور بینرز اتارنے کا حکم دیا مگر پولیس والے نے الیکشن کمشنر کےساتھ وہی کیا جو قومی سیاست میں ہوتا ہے ۔یہ پوسٹرز الیکشن کے تین روز بعد تک لگے رہے ۔گویا الیکشن کمشنر کا حکم ہوا میں اڑا دیا گیا جب دو افراد جعلی ووٹ ڈالتے ہوئے پکڑے گئےتو ایک پولنگ افسر نے کہا کہ ’’آپ ان کو تھانہ انارکلی لے جائیں‘‘ اس نے کہا کہ آپ پولنگ افسر ہیں، میں نے بندے پکڑ کر آپ کو بتا دیا ہے بعد میں پتہ چلا کہ کم از کم ایسے پانچ کیس سامنے آئے ۔بخاری آڈیٹوریم میں پولنگ ہو رہی تھی اور اس آڈیٹوریم کو مچھلی منڈی بنا دیا گیا تھا کیونکہ خفیہ پولیس اہلکاروں کی بھاری تعداد وہاں موجود تھی جو لوگوں کو پولیس والے کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتی رہی ۔بیلٹ پیپرز کے چند نمونے مجھے ایک امیدوار ساجد گورایہ نے بھجوائے ہیں ان بیلٹ پیپرز پر کوئی سیریل نمبر ہی نہیں، جیسے یہ الیکشن گورنمنٹ کالج لاہور میں نہیں بلکہ چھانگا مانگا میں ہو رہا ہو۔ مثال کے طور پر یہ یونین کونسل کا عجیب الیکشن تھا کہ کونسلرز ایک گروپ کے جیت گئے اور چیئرمین کسی اور گروپ کا جیت گیا حالانکہ ووٹرز وہی تھے مگر خفیہ والے تو خفیہ والے ہوتے ہیں وہ اپنا کام دکھا جاتے ہیں ۔میں نے پیارے طیب رضوی اور رابعہ باجوہ کو مبارکباد دی ہے ۔ڈاکٹر عبدالباسط مبارک باد کے مستحق اس لئے نہیں کہ وہ ساڑھے چار سو کارڈ لیجانے کے عمل میں شریک ہیں، یہ عمل جی سی کی شاندار روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔

الیکشن سے پہلے پولیس والے کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست گئی ، ہائیکورٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ پولیس والا سیاست کرتا ہے، یہ نوکری کا اہل نہیں پھر اچانک اس درخواست کو تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ درخواست دہندہ راوین نہیں تھا۔اس الیکشن میں دھونس دھاندلی، ڈرانا دھمکانا، انتظامیہ کی ملی بھگت، الیکشن کمیشن کی بے بسی سمیت گنتی تک میں ہیرپھیر نظر آیا۔

فوجی بیک گرائونڈ کے حامل میرے ایک عزیز احمد وقاص جنجوعہ کہنے لگے کہ ’’آپ راوینز تو ملک کی کریم ہیں، آپ لوگوں میں بھی اتنے جاہل ہیں کہ تین سو سترہ ووٹ مسترد ہوگئے ‘‘میں کیا کہتا کہ یہ سب پولیس والے، کالج انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے کارنامے ہیں، راوینز ایسے نہیں ہوسکتے۔ہارنے والے صدارتی امیدوار رانا اسد اللہ خان نے تیرہ نکات پر مشتمل ایک درخواست چیف الیکشن کمشنر کو دی ہے اس کا جواب الیکشن کمشنر اور کالج انتظامیہ کے پاس نہیں کیونکہ سچ کا سامنا بہت دشوار ہے ۔یہ تیرہ نکات انتخابی بے ضابطگیاں ہیں ۔اس بڑی غفلت، دھاندلی اور بددیانتی پر میری مادر علمی رو رہی ہے۔ اس کے آنسوئوں کے پیچھے خفیہ پولیس والے ، الیکشن کمیشن اور کالج انتظامیہ ہے جنہوں نے اس عظیم درسگاہ کی شاندار روایات کاپاس نہ کیا، وہ معاشرے کے جرائم کو اس حسین درسگاہ میں لے آئے، ٹاور رو رہا ہے ،درس گاہ رو رہی ہے اور روتے روتے پوچھ رہی ہے مجھے داغدار کس نے کیا کہ بقول ناصر بشیر؎

ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھاگئی

سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا

تازہ ترین