• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے بعد سے لے کر اب تک جہاں ہرمعیشت کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہیں اس معاشی بحران نے انسانوں اور سماجوں پہ زیادہ برے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں، جہاں ڈیلی ویجز پہ کام کرنے والوں کے لئے زندگی گزارنا بہت ہی مشکل ہوگیا۔ بالکل اسی طرح وہ افراد جن کا زیادہ تر انحصار گزارا ان شعبوں پہ تھا جن کا کورونا میں لاک ڈاون کی وجہ سے شدید نقصان ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے کاروباری نقصان کا خسارہ کم کرنے کے لئے بہت سارے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کی استعداد کار (productivity and efficiency level) زیادہ اچھی نہیں ہوتی جنہیں blue collar جاب کرنے والے افراد کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ مختلف صنعتوں اور شعبہ ہائے زندگی میں منسلک ہوتے ہیں. لیکن اپنے حالات کی وجہ سے مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتے اور مشکل حالات میں ہمیشہ مزید مشکل حالات میں گھر جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ افراد زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے فریسٹریشن یعنی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ مایوسی ان لوگوں میں طبقاتی مسابقت(have or have not) کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ اب ان طبقاتی فرق نے چند لوگوں میں منفی رجحانات کو بیدار کردیا۔ جس کی وجہ سے سڑکوں پہ چھینا جھپٹی(snatching ) کے واقعات رونما ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ جن میں موبائل فونز، بٹوے ( wallets )، خواتین کے بیگز، زیورات خاص طور سے شامل ہیں۔2015کے بعد سے کراچی کی شہریوں نے سکھ کا سانس لینا شروع کیا تھا۔ لیکن اس کورونا کے باعث منفی معاشی صورتحال نے پھر اس شہر کی رونق اور شہریوں کے اعتماد کو گہنا دیا ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔دوسری طرف بعض لوگ اس اچانک حملے خوفزدہ ہونے کی بجائے aggressive ہوتے جارہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہماری اتنی محنت کی کمائی اتنی آسانی سے چھین بلکہ کھلے عام لوٹ لی جاتی ہے۔ لہذا اب ہم اپنا پیٹ کاٹ کر پہلے اسلحہ خریدیں گے۔ کیونکہ ہماری "جان اور مال کی حفاظت" کی "کسی کی ذمہ داری نہیں" تو کیوں کسی اور کی حفاظت (حکومتی عہدیدار )کے لئے ہم ٹیکس دیں۔ اسی پیسے سے ہم اپنی حفاظت کا بندوبست کیوں نہ کرلیں۔یقینا یہ سوچ درست نہیں۔ لیکن ایک ذہنی دباؤ میں مبتلا شخص کو اسی قسم کی سوچ آتی ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینے سے بہتر ہے علاقائی سطحوں پہ کچھ اہتمام کیا جائے۔ تاکہ بےروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر چھینا جھپٹی کی وارداتوں کو ہونا سے روکا جائے۔ اور ان وارداتوں کے متاثرین کو تحفظ فراہم کرتے ہوتے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ وگرنہ یہ دونوں طبقے اگر اپنی اپنی جگہ ڈٹ گئے تو نقصان سب کا ہوگا اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔یقینا معاشی بدحالی قدرت کی طرف سے ہے۔ لیکن بروقت اور درست فیصلے کرکے اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کب جب حکومت وقت " فلاحی ریاست " بننے کا اصولا فیصلہ کرلے۔ ناکہ صرف دوسروں کی برائی کرکے دشنام طرازی کا بازار گرم رکھے۔ دانشمندانہ اقدامات کرکے موجودہ حکومت بہت سی نیک نامی کما سکتی ہے۔ لیکن دانشمندانہ اقدامات اٹھانے کے لئے دانش درکار ہے جوکہ شاید ناپید ہے۔اب بھی وقت ہے لوگوں میں پھیلنے والی مایوسی کو دور کرنے کے طبقاتی فرق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔ کیونکہ لوگوں کا حکمرانوں پہ اعتماد فلاحی ریاست کی اولین شرط ہے۔ دعوئ کرتے رہیئے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین