• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”دن جو پکھیرو ہوتے پنجرے میں رکھ لیتا“
لیکن جب وقت گذر رہا ہوتا ہے تو دھیان کیا وہم و گمان تک میں نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ ماضی بن کر زندگی بھر کسی آسیب کی مانند آپ کا پیچھا کرتا رہے گا۔ جوانی بھی نئی نئی تھی نیو کیمپس بھی نیا نیا تھا۔ دن بھی بہت خوبصورت تھے اور دوست بھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہی زندگی ہے اور ہمیشہ یونہی چلتی رہے گی لیکن آج اس حسین دلفریب خواب سراب کو بیت چکے تقریباً 42 برس ہوچکے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب صرف 42 پہر پہلے کی بات ہے، کبھی یوں محسوس ہوتا کہ 42 منٹ پہلے کی بات ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ 42 ہزار سال بیت چکے اور کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کوئی سپنا دیکھا تھا جو آنکھ ھلتے ہی ریزہ ریزہ ہو گیا۔
60ء کی دہائی کے بالکل آخری سال تھے جب میں تھرڈ ائیر میں بطور انڈر گریجویٹ نیو کیمپس کے ہاسٹل نمبر 1 میں داخل ہوا۔ اجنبی چہرے، اجنبی ترین درودیوار لیکن پھر برف پگھلنے لگی، پھوار پڑنے لگی، دھوپ چمکنے لگی، چاندنی چھٹکنے لگی، معطر ہوا چلنے لگی، پھول کھلنے لگے، دوست ملنے لگے اور چند ہفتوں کے اندر اندر یوں محسوس ہونے لگا کہ
بچپن سے اسی بستی کے باسی ہیں اور اس کے مکین تو جیسے پچھلے جنم کے ساتھی ہیں حالانکہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ حسین، بابل، عبدالعلی اور دیوار مشرقی پاکستان سے آئے تھے، صلاح الدین درانی، رجب پتافی، شیر قادر ڈی جی خان کے تحفے تھے، مقبول ملک اور اعجاز بائی گاڈ سرگودھا سے چلے تھے، آصف الفت، ضیا عرف ڈاکٹر ژواگو کا تعلق کراچی سے تھا۔ ساڑھے چھ فٹ کا شنگرفی یوسف زمان شنواری عرف ڈگلو علاقہ غیر کا اپنا تھا، اعجاز نقوی گجرانوالہ کی سوغات تھی، راشد بٹ سیالکوٹی تھا، خواجہ سلیم پنڈی والا، عنایت، شیخ افضل، ادریس قصوری تھے، اصغر گردیزی شبیر قریشی ملتان کی سبحان مٹی سے چلے تھے، لائل پور سے ہم تین بتیاں دیکھنے بھیجے گئے۔ حفیظ خان، افتخار فیروز اور خاکسار۔ حفیظ خان اور افتخار فیروز انگریزی اردو کے سحر انگیز مقرر، حفیظ خان بعدازاں سٹوڈنٹس یونین کا لیجنڈری صدر بنا، میں اور خان شروع سے کلاس فیلو تھے بلکہ مجھے اور حفیظ خان کو تو میرے والد مرحوم مغفور نے مع سامان خود ہاسٹل چھوڑا تھا۔ 40 سال بعد حفیظ خان نے یاد دلایا ”انکل کی گاڑی کا نمبر 16 تھا، بلیو رنگ کی برلینا تھی اور انہوں نے مجھے تمہارا خیال رکھنے کی خصوصاً تاکید کی تھی۔“ حفیظ خان واقعی تب سے ابتک بڑے بھائیوں کی طرح میرا خیال رکھے ہوئے ہے۔ لاہور سے جاویدگتہ، سہیل ضیا، اوسط رضا زیدی اور امریکہ سے شہریارراشد راشد صاحب کا بیٹا تھا، ساہیوال سے میاں اشرف، منظور اعجاز حال مقیم امریکہ ڈاکٹر منظور اعجاز جو گاہے ”جنگ“ کیلئے بھی لکھتا ہے، سرائیکی بیلٹ کا باغی امتیاز عالم اور وہاں اک اور پنڈی وال راجہ انور … کسے یاد رکھوں کسے بھول جاؤں؟ ایک سے بڑھ کر ایک، اپنی اپنی ذات میں پوری پوری کہکشاں تھے یہ لوگ جن میں سے کچھ بچھڑ گئے، کچھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے، بہت سوں کے حلیئے بگڑ گئے لیکن ایک ظالم ایسا تھا جو بھلائے نہیں بھولتا۔نکلتے قد، اکہرے بدن، گورے رنگ، شرارتی آنکھوں، عجیب حرکتوں، دلچسپ جملوں اور خوبصورت لباسوں والا امتیاز جسے ساری یونیورسٹی تاجی تاجی کہتی تھی۔ وہ خود شرارتاً کہا کرتا تھا کہ ”جب میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنی موٹر سائیکل کو کک مارتا ہوں تو لڑکیاں سنورنے سنبھلنے لگتی ہیں کہ شہزادہ آرہا ہے۔“ ایک بار تاجی کا بڑا بھائی انگلینڈ سے اس کیلئے خاصی قیمتی گھڑی لیکر آیا۔ سردیوں کے دن تھے لیکن سخت سردی میں تاجی نے کوٹ اتار کر کندھے پر رکھا، بائیں بازو کے کف رول کیے اور بازو لہرا لہرا کر یونیورسٹی کے مین کوریڈور میں ٹہلنے لگا۔ گھڑی کی ”بیش قیمتی“ کا ”سکینڈل“ زبان زد عام تھا۔ کچھ لڑکیوں نے شرارتاً پوچھا۔”تاجی! ٹائم کیا ہوا ہے؟“”قیمتی گھڑی ہے اس لئے کم استعمال کرتا ہوں۔ کسی سستی گھڑی والے سے ٹائم پوچھ لو۔یہ تھا تاجی جس نے یہی بیحد قیمتی گھڑی ایک ڈاکیئے کی بہن کی شادی پر بیچ کر اس کی مدد کی کہ یہی اس کا اصل روپ تھا۔ گذشتہ اتوار میں سہیل وڑائچ کا ”ایک دن جیو کیساتھ“ دیکھ رہا تھا۔ اس بار سہیل کا شکار اک نوجوان گلوکار تھا جس نے ”جیو“ کا مشہور زمانہ گائیکی مقابلہ جیتا تھا۔ پروگرام کے دوران سہیل صاحب نے نوجوان سنگر کے والد سے گنگنانے کی فرمائش کی تو آپ نے اک ایسا گیت چھیڑا جو سیدھا میرے دل میں کسی خنجر کی طرح اترتا چلا گیا اور پھر میری آنکھوں سے ساون بن کر پھوٹ پڑا۔ گیت تھا۔
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
یہ تاجی کا فیورٹ گانا تھا جس میں اس نے ہلکی سی ترمیم کررکھی تھی۔
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو امتیاز یاد آئے گا
جب کوئی ستارہ ٹمٹمائے گا
تم کو امتیاز یاد آئے گا
یہ ستارہ کب کا ٹوٹ چکا
پچھلے دنوں اک خوبصورت جوڑا ملنے آیا۔ دونوں ہی ہمارے انہی دنوں یونیورسٹی میں ساتھ تھے جو پھر زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ہولیے۔ ہم تینوں گھنٹوں پچھلی کہانیوں اور کرداروں میں کھوٹے رہے کہ اچانک خاتون نے پوچھا۔”وہ شرارتی سا لڑکا امتیاز کہاں ہوتا ہے جو گاتا پھرتا تھا
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو امتیاز یاد آئے گا
میں نے کہا ”اسے دنیا سے رخصت ہوئے تو کئی سال ہوگئے میاں بیوی دونوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ چہرے بجھ سے گئے۔ ڈرائنگ روم میں موت کا ساسناٹا تھا جس سے گھبرا کر میں نے سکوت ساگر میں کنکر پھینکا۔
لیکن وہ جتنا شرارتی تھا اتنا ہی سچا تھا۔ وہ ٹھیک کہا کرتا تھا
”جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو امتیاز یاد آئے گا
جب کوئی ستارہ ٹمٹمائے گا
تم کو امتیا ز یاد آئے گا“
ستارہ کب کا ٹوٹ چکا
ستارے ٹوٹ ہی جاتے ہیں اور
پھول لاکھوں برس نہیں رہتے لیکن ستاروں کی چمک اور پھولوں کی خوشبو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
تازہ ترین