• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے کافی کا گھونٹ بھرا اور سامنے بیٹھے ہوئے جوڑے کو گھورنے لگا۔ دونوں خوش شکل اور جوان تھے، عورت کی عمر چھبیس ستائیس برس کے قریب تھی جبکہ مرد زیادہ سے زیادہ تیس سال کا تھا۔عورت کی آنکھوں میں مرد کے لئے بلا کا پیار تھااور وہ بات بات پرسر کو پیچھے جھٹک کر ہنستی تھی ۔مجھے بلاوجہ ہنسے والی عورتیں زہر لگتی ہیں ۔مردکی شکل پر نحوست چھائی ہوئی تھی،وہ عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے تھوڑی تھوڑی دیر بعد باہر تکنے لگتا ۔”یقینا ،یہ منحوس اس عورت کو ایک دن دھوکا دے گا،“ میں نے دل میں سوچا اور کافی کا ایک اور گھونٹ حلق میں انڈیلا۔عورت کے مسکراہٹ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، یوں لگتا تھا جیسے وہ بھرپور زندگی جینے کی خواہش مند ہو اور آج اس کی یہ خواہش پوری ہونے جا رہی ہو۔”پتہ نہیں یہ عورتیں اس قدر ہنسوڑ کیوں ہوتی ہیں “،میں نے منہ بسورا اور کافی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہو۔میز چھوڑنے سے پہلے میں نے ایک نظر ریستوران کے ماحول پر ڈالی، لوگ خوش گپیوں میں مشغول تھے،کسی کے چہرے پر معصومیت تھی تو کسی کی آنکھوں میں شوخی ۔عجیب لوگ ہیں، نہ جانے کس بات پر اتنے مطمئن بیٹھے ہیں ،کیا انہیں زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ؟ ان بے وقوفوں کو پتہ ہی نہیں کہ ان کی زندگی کس قدر ارزاں ہے ،ایڈیٹس!مجھے تو ان کے چہروں سے ہی نفرت ہے جن پر سرخی پاؤڈر تھوپ کر یہ اپنی بدصورتی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔میرا بس چلے توان کے چہروں کو تیزاب سے جھلسا دوں!
مجھے بچے بھی سخت نا پسند ہیں ۔روتے بسورتے، بدتمیز اور بے ہودہ عادتوں والے بچے مجھے زہر لگتے ہیں۔ احمق ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو بلاوجہ لاڈ پیار سے خود سر اور ضدی بنا دیتے ہیں،مجھے تو آج تک کوئی تمیز دار بچہ نہیں ملا۔اوریہ بھی محض بکواس ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں،آج کے دور میں کوئی بچہ معصوم نہیں ہے ،دراصل وہ ماں باپ بے وقوف ہیں جو اپنے بچوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ہمیشہ سختی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ڈسپلن قائم رہے۔بچپن میں ہمارے ایک استاد سردیوں میں بید سے مارا کرتے تھے جس سے میرے ہاتھوں پر نشان پڑ جاتے اور میں کلاس میں کئی گھنٹے تک روتا رہتا، مجھے کبھی کسی پر ترس نہیں آیا ،ویسے مجھے اس بات سے چڑ تھی کہ لوگ مجھ پر ترس کھائیں ۔ایک دفعہ مجھے کلاس کا مانیٹر بنایا گیا تو میں نے اپنے ہم جماعت کو اسی بید سے اس زور سے مارا کہ اس کے سارے جسم پر نیلے نیلے نشان پڑ گئے۔ تب زندگی میں پہلی دفعہ مجھے طمانیت کے معنی سمجھ میں آئے!
اور یہ جو لوگ محبت کرتے ہیں، ان سے زیادہ احمق روئے زمین پر کوئی نہیں ہوتا ۔ایک دوسرے کی زندگی میں پابندیا ں عائد کرکے اسے اجیرن کرنے کا نام ان بیوقوفوں نے محبت رکھا ہو اہے ۔ان جاہلوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ فرائیڈ اور دیگر نفسیات دان محبت کی دھجیاں اڑا چکے ہیں، ان کے نزدیک اصل حقیقت صرف جنس ہے باقی سب فراڈ ہے ،روحانی محبت،سچی محبت ،پاک محبت …کیا بکواس ہے ! مجھے بھی نوجوانی میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے ،جس لڑکی سے میں محبت کرتا تھا وہ مجھ سے شدید نفرت کرتی تھی ،میری شکل دیکھتے ہی وہ اپنا راستہ بدل لیتی،میں جب بھی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا ،وہ نہایت برا سا منہ بنا کر اپنی سہیلیوں سے بات شروع کر دیتی۔ اسے میری شکل سے ہی نفرت تھی حالانکہ میں دیکھنے میں اتنا برا بھی نہیں تھا، بس رنگ ذرا پکا تھا اور سر کے کچھ بال غائب تھے جو لڑکپن میں ہی جھڑ گئے تھے ،دائیں گال پر موٹا سا تل تھا اور ماتھے پر زخم کا نشان جو بچپن میں ایک چوٹ کے نتیجے میں ایسا پیدا ہوا کہ اب تک وہیں ہے ۔مجھے اس بات کا ملال نہیں تھا کہ وہ لڑکی مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی ،البتہ جب اس نے کلاس کے سب سے امیر لڑکے کے ساتھ شادی کرلی تو نفرت کا ایک ابال میرے سینے میں پیدا ہو گیا ۔مجھے اپنی ہتک محسوس ہوئی اورمیں نے اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا ۔شادی کے پندرہ دن بعد انہو ں نے ہنی مون کے لئے مری جانے کا پروگرام بنایا ،مجھے ان کے ٹور کی پوری خبر تھی۔جونہی ان کی گاڑی چھرا پانی سے آگے پہنچی ،اچانک اس کا ٹائی راڈ کھل گیا اور گاڑی سینکڑوں فٹ نیچے کھائی میں جا گری ۔اگلے دن اخبارات میں اس نوبیاہتا جوڑے کی موت کا خاصا ماتم کیا گیا۔میرے غم کا ماتم کبھی کسی سے نہیں منایا!
شاید آپ لوگ مجھے کوئی جنونی یا ذہنی مریض سمجھ رہے ہیں، مجھے اس پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ میرے دوستوں اور گھر والوں کا بھی یہی خیال ہے ۔مگر وہ معصوم لوگ ہیں ،انہیں پتہ ہی نہیں کہ نفسیات کس چڑیا کا نام ہے! جو شخص عام انسانوں کی طرح نہیں سوچتا اسے یہ دنیا پاگل سمجھتی ہے جبکہ ہر جینئس شخص ایک لحاظ سے پاگل ہی ہوتا ہے۔ابھی تو میں اپنی سوچ کا برملا اظہار نہیں کرتا ورنہ یہ جنونی لوگ مجھے زندہ درگور کر د یں ۔ایک دفعہ بس میں سفر کے دوران میں نے اپنے ساتھ والے مسافر سے کہا کہ جو لوگ ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اندھا دھند سڑک پار کرتے ہیں انہیں کچل دینا چاہئے تو اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کچا چبا جائے گا ۔انسان کا کچا گوشت بھی کس قدر لذیذ ہوتا ہے !
مجھے قبرستان بہت پسند ہیں،مردہ لوگ کسی کو کچھ نہیں کہتے ،اپنی قبر میں چپ چاپ پڑے رہتے ہیں۔ میں نے کئی قبریں کھود کر چیک کی ہیں، وہ قبریں بھی جن میں مردے کو دفنائے ہوئے ابھی چند دن ہی گذرے تھے۔ مردہ انسان سے زیادہ خوبصورتی کسی میں نہیں ہوتی ،مرا ہوا شخص کسی کو طعنے دیتا ہے نہ کسی سے نفرت کرتا ہے، وہ منافقت کر سکتا ہے اور نہ خوشامد ،زندہ انسانوں میں یہ خوبی کہاں!سچ پوچھیں تو یہ دنیا دراصل قبرستانوں کی وجہ سے ہی قائم دائم ہے ۔اگر دنیا میں اموات بند ہو جائیں تو یہ دنیا جہنم بن جائے ۔پتہ نہیں لوگ بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور جوانوں کی موت پر آنسو کیوں بہاتے ہیں ،انہیں تو شکر کرنا چاہئے کہ دنیا سے ایک انسان کا خاتمہ ہوا۔میں روزانہ صبح اخبار میں سب سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ آج کتنے انسانوں نے دنیا میں جگہ خالی کی ۔سب سے منحوس خبریں مجھے وہ لگتی ہیں جن میں سائنس دانوں کے دعوے بتائے جاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی دوا ایجاد کر لی ہے جس سے فلاں جان لیوا بیماری سے نجات مل جائے گی ۔ان سائنس دانوں کو عقل نہیں کہ اگر وہ اسی طرح دوائیاں ایجاد کرتے رہے تو انسانوں کا یہ سمندر اس دنیا کو نگل جائے گا ۔
یوں تو میں اپنے ان خیالات کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتا مگر میرا ایک شاگرد جس کی سوچ مجھ سے ملتی جلتی ہے ،مجھ سے بے حد متاثر ہے ۔میری دیکھا دیکھی اسے بھی زندہ انسانوں سے نفرت ہو گئی ہے اور وہ ان کو زمین پر بوجھ سمجھتا ہے۔میں پچھلے چھ ماہ سے اس کی ذہنی تربیت کر رہا ہو ں اور آج اس تربیت کا آخری دن ہے ۔آج کے بعد مجھے سکون مل جائے گا کہ اس زمین پر کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہے جس کے ساتھ میری مکمل ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اب میں دنیا کو بتا سکوں گا کہ محض مختلف سوچ رکھنا پاگل پن نہیں بلکہ عامیانہ سوچ کے حامل افراد ابنارمل ہوتے ہیں۔ آج مجھے سکون کی نیند آئے گی ۔
پس نوشت: شاگرد نے اپنے استاد کی تربیت کا نہایت گہرااثر لیا ، چند روز بعد اس نے اپنے استاد کے گھر آدھی رات کو دستک دی ،جب وہ باہر آیا تو اس نے اپنے پستول کی چھ گولیاں استاد کے سینے میں اتار دیں ۔مردہ استاد کے سر کو شاگرد نے نہایت احترام سے اپنی گود میں لیا اور ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا”آج ایک اور زندہ انسان اس دنیا سے کم ہوگیا۔“ استاد کی موت کے بعد اب دنیا میں کافی سکون ہے ۔
تازہ ترین