• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آمریت کے بالمقابل جمہوریت فرد کے حقوق، ناموس، وقار، اختیار، ضمیر کی آواز اور آزادی اظہار کا نام ہے جسے کسی دبائو کے زیر اثر نہیں ہونا چاہئے۔ پوری دنیا کی جمہوریتوں میں بلا جبر و اکراہ، کسی کی ظاہری یا پوشیدہ چاپلوسی کے بغیر محض ضمیر کی مطابقت میں حق رائے دہی کے اظہار کا چلن ہے۔ درویش کو سمجھ نہیں آرہی کہ اتنی واضح اور دوٹوک آئینی شق کی موجودگی کے باوجود بعض عناصر کیوں حالتِ بخار میں ہیں؟ بلاشبہ ہماری سپریم جوڈیشری کو آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے مگر سوال یہ ہے کہ تشریح کی ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں ابہام ہو۔

سینیٹ کا الیکشن بلاشبہ ہماری ریاستی اکائیوں کی برابری اور مساوات کا مظہر ہے، جسے دیگر تمام انتخابات کی طرح آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونا چاہئے مگر درویش کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے سیاستدانوں کو آج جو پریشانی اتنی شدت سے محسوس ہو رہی ہے عام انتخابات کے موقع پر کیوں محسوس نہیں ہوتی؟ ماقبل 2018میں جب عام انتخابات کا معرکہ درپیش تھا، ذرا اس صورت حال کو تصور میں لائیں، تب بھی تو سینیٹ میں انتخابی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی اگر کسی کو یاد ہو کہ 64ووٹ 50کیسے ہو گئے؟ واضح اکثریت کے باوجود کیا گیم کھیلی گئی تھی، حکومتی پارٹی کے اپنے ممبران اسمبلی کی پوری تفصیل سے کون بےخبر ہے جن کے خلاف حسبِ معمول تادیبی کارروائیوں کے نعرے خوب لگائے گئے مگر ہوا کیا؟ اور بعد ازاں کن عہدوں پر لگائے گئے۔ اس پوری ٹیم میں ہمارے بڑوں کی تشویش کہاں چلی گئی تھی؟ آج یہ کہا جارہا ہے کہ جس جماعت کے جتنے ووٹرز ہیں، اس کے اتنے ہی سنٹرز بننے چاہئیں۔ ماشا ﷲ بڑی اچھی خواہش ہے لیکن افسوس کیا کوئی شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ کسی پاپولر سیاسی جماعت کومختلف حیلوں ہتھکنڈوں سے ناک آئوٹ کرتے ہوئے اس کے حقوق کیوں چھینے جاتے ہیں؟ عوام کی پاپولر قیادت سے ہمیں چڑ کیوں رہتی ہے؟ یہاں تو نچلی سطح کی جمہوریت میں منتخب بلدیاتی اداروں کو برداشت نہیں کیا گیا، ہمیں اس پر پریشانی و تشویش کیوں نہیں ہے؟

آج میثاق جمہوریت کو زہر سے شہد سمجھتے ہوئے یاد فرمایا جا رہا ہے، بلاشبہ وہ سیاسی بلوغت پر مبنی دستاویز تھی جس میں اچھے مستقبل کے حوالے سے نیک خواہشات ہیں وقت کے ساتھ جن پر نظرثانی کی پوری گنجائش موجود ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت اپنا کنٹرول مستحکم بنانے کے لئے اس نوع کے سمجھوتے کرنے میں آزاد ہے مگر ان کی اصلیت و حقانیت تو اسی وقت ابھرے گی جب پارلیمان میں کماحقہ مباحثے کے بعد آئین و قانون سازی کا پراسس ہوگا وہاں ماہرین یہ گوش گزار کر سکتے ہیں کہ اوپن کی بجائے خفیہ حق رائے دہی جمہوری روح اور فرد کے حقوق کی عین مطابقت میں ہے لہٰذا دیگر آرا کی طرح یہ ایک رائے ہے جو دلائل سے تبدیل بھی ہوسکتی ہے سو اس پر تشویش چہ معنی دارد؟

اب دیکھتے ہیں اس نکتے کو کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے جو سیاستدان تیار کرتے ہیں، حضور بات اتنی سی نہیں ہے ، آئین محض سیاسی دستاویز نہیں ہے یہ ہماری قانونی، سماجی، عمرانی، تاریخی ، تہذیبی بلکہ قومی بقا کی ضامن دستاویز ہے۔ یہ اتنا بڑا عہدہ اور اتنا بڑا ادارہ اسی آئین کا مرہونِ منت ہے اس کے آرٹیکل 226کو کون نہیں جانتا ، بلاشبہ ہمارے بزرگوں کی تشویش قابل فہم ہے ان کا دکھ سمجھ آتا ہے وہ رنجیدہ خاطر ہیں کہ لوگ بھاری رقومات کے تھیلے تھامے بیٹھے ہیں لیکن کیا تھیلوں کے خوف سے ہم ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔ ہر بیماری کی اپنی دوا یا علاج ہوتا ہے یہ تمام احتسابی ادارے جو ہم نے محض سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کے لئے ان کے پیچھے لگا رکھے ہیں، تھیلے لینے والوں کا پیچھا کیوں نہیں کرتے؟

سیدھی بات ہے، اس ملک کی آئینی تاریخ پہلے ہی گھنائونی کہانیوں اور وارداتوں کے باعث تار تار ہے، خدارا اس قوم پر ترس فرمائیں اور ماور ائے آئین سوچوں کا خاتمہ ہونے دیں۔ سیدھی سی بات تھی کہ اپنی اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے ہوئے اگر آپ آئین میں ترمیم کروا سکتے تھے تو ضرور کروالیتے جب نہیں کروا سکتے تو پھر آپ کی 28سیٹوں سے کونسا انقلاب آ جائے گا؟ ہم اپنے آئینی اداروں کو کیوں بےتوقیر کریں اور کیوں اپنی پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کی حقیقت کو مسخ کرتے ہوئے اسے بازیچۂ اطفال بنائیں۔ پرویز رشید صاحب کے لئے دعا ہے کہ ان کی عظمت دوسروں کے لئے مینارہ نور ہو اور سینیٹر مشاہد ﷲ خان مرحوم کی یادیں ہمیں نیا حوصلہ اور ولولہ دیں۔

تازہ ترین