• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16 معصوم بچے اور ایک مجاہدہ استانی اسکول جاتے ہوئے ویگن میں آگ لگنے سے پلک جھپکتے جل کر راکھ ہوگئے۔ 16 ”ماہِ شب ِچاردہم “ پورے گرہن کی زد میں آگئے۔ اتنے سارے غنچے بن کھلے مرجھا گئے۔
ہاں!اے فلک ِپیر ، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرابگڑتا؟ جو نہ مرتا” کوئی د ن“ اور
ٹی وی آن کرتے ہی آہ و بکاکرتے بیچارے باپ، سینہ کو بی بال نوچتی مائیں اور نوحہ کناں بھائی بہنوں کے بین اس امید کے ساتھ کہ شاید مرنے والے زیادہ دور نہیں گئے دل دہلا دینے والی چیخیں جانے والوں کو واپس آنے پر مجبور کر دیں گی۔
دل کے غبار نے راہ جو پائی۔ شہر میں گویا آندھی آئی
صدمہ اور گھاؤ گہرا اس لیے بھی کہ جانے کا طریقہ روح فرسا اور اعصاب کو شل کر دینے والا۔شاہدرہ سکول میں شگفتہ ، کھلکھلاتے نونہالوں کا خاکستر ہونے کا واقعہ ہو یا آئے دن اغواء برائے تاوان ہو ، ڈرون حملے ہوں یا خودکش حملے ،کراچی کی فیکٹری میں آتشِ نمرود 350 گھرانوں کو کفیل سے محروم کردے یا لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی پلازہ کی نہ بجھنے والی جادوئی آگ ہو،کھلے ریلوے پھاٹک پر ٹرین سے ٹکراتی گاڑیاں، خسرہ، جعلی ادویات، ڈینگی وغیرہ سے اموات ہوں یا ناقص تعمیرات اورسڑکوں کے گڑھے ، گٹر۔ بجلی کے کھمبے ہوں، نہروں میں ڈوبنے کے واقعات ہوں ، گھروں کے گیس ہیٹر لیکیج یا فیکٹری کے بوائلرہوں عام شہری کا خون ارزاں اور روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ڈیتھ ٹریپ یعنی موت کا جال چار سو ۔ وطن عزیز میں مرنے مارنے کے سینکڑوں طریقے عوام الناس کو اپنے شکنجے میں لینے کو تیار۔ حکومت اور ادارے نامی چیز کو ناپید ہوئے بیسیوں سال گزر چکے۔ اس ملک میں جہاں 50 سال پہلے ”انسدادبے رحمی حیوانات“ کا قانون سختی سے رائج تھا وہاں آج پبلک سیفٹی ایکٹ حسِ مزاح کے پھڑکنے کا سامان ہے۔ عوام کی جان و مال اور خصوصاًبچوں کا بے رحمانہ قتل عام کیسے اور کب بند ہو گا؟مہذب ملکوں میں جب ڈرائیونگ لائسنس ٹیسٹ دینے جائیں تو 25 میں سے دس سوال بچوں کی سکول بس ، کراسنگ وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ بچوں کی سکول بسیں نمایاں اور اگر بچے موجود تو بس کے اردگرد جلتی بجھتی پیلی بتیاں چار سو ہوشیار باش کا سگنل دیتی نظر آتی ہیں۔کیا ریاستی ضابطے قانون ایکٹ اندھے، گونگے بہرے ہو چکے ہیں۔ یہ تجاہلِ عارفانہ تساہل بے کراں یا تغافل کا سیل رواں۔ وطن عزیز میں ہمارے جگر گوشوں کی حفاظت سے ایسی لاتعلقی ۔
انجینئرہونے کے ناطے پہلا اصول جو ازبرہوا ”Safety First “۔ انسانی جان کی حفاظت ہی توریاست کی پہلی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے قتل کا حالیہ اندوہناک واقعہ ہمارے ریاستی داغدار چہرے پر بدنما دھبہ کا اضافہ ہی تو ہے ۔مجرمانہ غفلت16 ہنستے کھیلتے گھروں کو اجاڑ گئی۔ 25مئی کو صبح سات بجے وین نمبرSGG 9076 نواحی دیہاتوں سے کمسن بچوں کو منگووال کے مقامی سکول میں چھوڑنے کے لیے جا رہی تھی کہ کوٹ فتح دین کے قریب اچانک آگ بھڑک اٹھی جس سے ویگن میں سوار 16 بچے اور ایک مجاہدہ ٹیچر موقع پر جل کر راکھ ہوگئے۔
جاتے ہو ئے کہتے ہو ”قیامت “ کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا ” کوئی دن“ اور
یارب العالمین اس کوہ غم کا بار ڈھلتی عمر کے والدین کیسے اٹھائیں؟گیس، ہیٹر، بوائلرزاورناقص سلنڈرسے ہونے والی اموات اجتماعی غم والم کو کھنگال چکی ہیں۔ آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ مملکت ِخدادادحسب معمول بے حس۔ سلنڈر CNG کا ہو یا گھریلو یاکمرشل استعمال کا ”چلتا پھرتابم “ ہی توہے۔وفاقی سطح پر جہاں پچھلے 20 سال سے بے شمار ریگولیٹری اتھارٹیز بنائی جا چکی ہیں۔ آج تک یہ تعین نہیں ہو سکا کہ سلنڈر ٹیسٹنگ اصل کس کی ذمہ داری ہے؟ ذمہ داری سے گلو خلاصی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ سلنڈر ٹیسٹنگ سرکاری اداروں کے نزدیک سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے چنانچہ ”خوانچوں “کی بندربانٹ کے لیے۔ پچھلے کئی سالوں سے مختلف ادارے بغیر مہارت اور وسائل کے اس کام کوہتھیانے کے چکر میں ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق صارفین کوپانچ ارب روپیہ ہرسال ٹیسٹنگ فیس کی مد میں دینا ہو گا۔ اتنی بڑی رقم پر رالیں توٹپکناضروری ہیں۔باؤصاحب!اگراختیارات چاہیے ہیں تو ذمہ داری بھی قبول کرنا ہو گی۔ جب حادثات کا انبوہ لگا تو صوبہ پنجاب ٹرانسپورٹ کے محکمے نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ سال بھر کی محنت کے بعدجو گزارشات مرتب ہوئیں اس میں یہ بات تاکید کے ساتھ کہہ دی کہ سی این جی سلنڈر اور اس سے متعلقہ پائپنگ گاڑی سے باہر نصب کیے جائیں تاکہ مسافروں کے بیٹھنے والے حصوں میں ایندھن کی تنصیبات نہ ہوں۔دنیا بھرمیں پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں یہ تنصیبات باہر ہی ہوتی ہیں۔ اس کی مثال حال ہی میں LTC کی درآمد شدہ بسیں ہیں۔یہ گزارشات قانونی طور پہ منظور ہو کرروبہ عمل ہو گئی ہوتیں تو یہ اندوہناک حادثہ رونما نہ ہوتا۔ قانون تو پابند کرتاہے کہ سی این جی اسٹیشن انتظامیہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ”گیس فٹنس سسٹم “ کو چیک کرے گی اور سرٹیفکیٹ جاری کرے گی۔ جن گاڑیوں کے پاس سرٹیفکیٹ نہیں ہو گا ان گاڑیوں میں گیس نہیں بھری جائے گی۔ مگر ان ضابطوں پر عمل درآمد کرائے کون؟پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی فٹنس صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری ہے جبکہ محکمہ کے پاس مطلوبہ صلاحیت ہے ہی نہیں۔ اس وقت پنجاب میں گنتی کے چندموٹر وہیکل ایگزامنر موجو د ہیں جو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ ایگزامنر گاڑیوں کی فٹنس اپنے تجربے سے جاری کرتے ہیں کیونکہ محکمے کے پاس جانچنے کے آلات موجودہی نہیں لہٰذاامید رکھی جا سکتی ہے ایسی ناگہانی خبریں ہماری خبر گیری کرتی رہیں گی۔گجرات کے بچوں کے قاتل ریاستی ادارے اور حکومت ہی توہیں ۔
1975 ء میں پارلیمنٹری ایکٹ نمبر1 - 2006 کے تحت مرکزی حکومت نے تیل اور گیس کے معاملات کو سدھارنے اور ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے ہائیڈرو کاربن ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان( HDIP) تشکیل دیا۔اس کا چارٹر ایسا بنایا جیسے وطن عزیز کے ہر قسم کے عارضے کا نسخہ کیمیا ایجاد ہو گیا۔ HDIP نے بڑی تگ و دو اور محنت شاقہ کے بعد حال ہی میں سلنڈر ٹیسٹنگ کی انسپکشن کا کام ہتھیا ہی لیاہے۔امید رکھی جانی چاہیے کہ عملدرآمد میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اس وقت ملک میں تقریباً50 لاکھ مختلف سلنڈرانواع واقسام کی گاڑیوں میں نصب ہیں گو کہ کثیر تعداد محفوظ ہے مگراس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں خالصتاًسلنڈر کی اپنی مہربانی ہے۔کیایہ لازم قرار دیا جاسکتا ہے کہ سلنڈر پھٹنے کاکوئی واقع ہو تو FIR متعلقہ محکمہ کے خلاف فی الفور درج کرکے گرفتاری عمل میں لائی جائے ؟ جب تک حادثات پر جانی اور مالی نقصان کی ایف آئی آر حکومتی اداروں یا ان کے سربراہوں کے خلاف درج نہ ہو گی(جیسا کہ مسلم لیگ ن کے پچھلے دور 1997-99 میں ہوتا رہا)جب تک دو چار درجن اداروں کے سربراہ حوالہ زندان نہیں ہوں گے بکھرے جسم اور سوختہ لاشیں ماؤں کے کلیجوں کو پھاڑتی رہیں گی ، کلیجہ منہ کو آتا رہے گا ، کلیجے پر چھریاں برچھیاں چلتی رہیں گی ۔ ماں باپ کو زندہ درگور کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ اگرقانون نے ”بڑوں“ کو آڑے ہاتھوں لیا تو نہ گٹر کھلا ملے گا نہ پانی گدلہ ہو گا۔ نہ چھت گرے گی نہ سوئی گیس لیک ہوگی اور نہ سلنڈر پھٹے گا۔ HDIP یا ایسے ادارے محض حکومتی چاول کی دیگ کافقط ایک دانہ ہے۔ توقع تو یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن بشمول پیپلزپارٹی اور PTI ، جماعت اسلامی کی مرکزی و صوبائی حکومتیں تمام اداروں کو ایسے خطوط پر استوارکریں گی کہ ”سیفٹی فرسٹ “رہنما اصول ٹھہرے گا۔ سنہری موقع ہے کچھ کر گزرنے کا۔ مقابلہ سخت ہے جو کر گزرا وہی سکندر۔ ایسے ادارے جو ریاستی ناسور بن چکے ان کو بند کرنا ہی پڑے گا یا نیلام کرنا ہو گا۔ آئے دن خستہ غم، سرتاپا اندوہ والم ، بس بھائی بس !بہت ہو چکا ۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے ۔ 16 بچوں کی موت ایسے جیسے شہر میں گویا سرخ آندھی ۔
ویسے تو سوائے جماعت اسلامی کے پاکستان کی ساری کی ساری سیاسی جماعتیں شخصی ملکیت کے اوپر استوار کی گئی ہیں یعنی Sole Proprietorship کے اصول پرسختی سے کاربندہیں۔ تحریک انصاف اس کلب میں ایک نیا خوشگوار اضافہ ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی جتنے بھی فیصلے ہوئے ۔ کچھ کے نتائج توفوری طور پر آچکے ہیں اور کچھ رہتی زندگی تک قیادت کے منہ کا ذائقہ کڑواہی رکھیں گے۔استبداد کے ساتھ ساتھ نااہلی اور بدنیتی ہم جولی بن جائیں تو نتیجہ توقعات پوری نہیں کرتا۔میانوالی کے ورکرز کاتحریک ِ انصاف کے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی پر غل غباڑہ اور شوروغوغا دیدنی ہے۔ بات ہے بھی سچ ،مگر ہے بہرحال رسوائی کی۔ محترمہ عائلہ ملک جو منتظم اعلیٰ برائے میانوالی امور تھیں نے PTI کے MPA کے خلاف آزاد امیدوار کے حق میں موثر مہم چلا کر PTI کو MPA کی ایک یقینی اور جیتی ہوئی نشست سے محروم کروا دیا۔ ورکرز اب اس سوالیہ نشان کے ساتھ کہ ” قائدین کا سینڈیکیٹ“ محترمہ کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کرتا ہے؟۔ ویسے اس سے ملتی جلتی خبر نے بھی مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ PTI نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر ان کا نام سلونی بخاری اورمحترمہ فوزیہ قصوری سے کہیں آگے رکھا۔ بس اتنا عرض ہے کہ اگر پارٹی خود میرٹ کی دھجیاں اڑائے گی تو مخالفین تمسخر اڑانے میں یقینا حق بجانب ہوں گے۔
تازہ ترین