• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قومی ایئر لائن گزشتہ دنوں دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی اور پی آئی اے کے مسافر طیارے کو برطانوی جنگی طیاروں کے حصار میں لندن کے مضافاتی ایئر پورٹ پر اتارنے کے منظر کو دنیا بھر میں ”بریکنگ نیوز“ کے طور پر پیش کیا گیا۔ لاہور سے مانچسٹر جانے والی پرواز PK-709 میں یہ ڈرامائی صورتحال اس وقت رونما ہوئی جب پرواز کے منزل مقصود کے قریب پہنچنے سے کچھ دیر قبل طیارے میں سوار 2 مسافروں کے باہمی جھگڑے کے سبب ان کی فضائی عملے سے تلخ کلامی ہوئی اور طیارے کے عملے کے بقول دونوں مسافروں نے طیارے کو اڑا دینے کی دھمکی دی جس پر طیارے کے کیپٹن نے طیارے میں پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتحال کی اطلاع برطانوی ایئر ٹریفک کنٹرول کو دی جس کے نتیجے میں برطانوی فضائیہ کے2جنگی طیارے فضا میں بلند ہوئے جنہوں نے پی آئی اے کے طیارے کو حصار میں لے کر اس کا رخ مانچسٹر کے بجائے لندن کے اسٹین اسٹینڈ ایئرپورٹ کی طرف موڑ دیا۔ طیارے میں297 مسافر اور عملے کے11/افراد سوار تھے۔ طیارے کی ایمرجنسی لینڈنگ کے فوراً بعد برطانوی پولیس اہلکار اس میں داخل ہوئے اور سیٹ نمبر 61 اور 62 پر بیٹھے 2 مسافروں کو حراست میں لے لیا۔ گرفتار ہونیوالے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں41 سالہ محمد صفدر اور 30 سالہ سید طیب سبحانی کا تعلق لنکاشائر کاؤنٹی کے علاقے نیلسن سے ہے۔ برطانوی عدالت نے ان دونوں افراد پر پی آئی اے کے طیارے کو نقصان پہنچانے پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
2 مسافروں کی فضائی عملے سے تلخ کلامی کے ایک چھوٹے واقعہ نے جس طرح ڈرامائی صورتحال اختیار کی اس نے پاکستان اور پاکستان سے باہر مقیم پاکستانیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کہیں یہ واقعہ طیارے کے کیپٹن کے غیر معمولی ردعمل یعنی Over React کا نتیجہ تو نہیں؟ واضح ہو کہ اس واقعے سے 2 روز قبل لندن میں نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے 2 مسلمانوں کے ہاتھوں ایک برطانوی فوجی کے دن دہاڑے سفاکانہ قتل کے باعث برطانوی سیکورٹی ایجنسیاں ہائی الرٹ تھیں۔ ایسے میں جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ کچھ مسافر، طیارے کو اڑانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور طیارے اور مسافروں کا تعلق پاکستان سے ہے تو انہیں خدشہ ہوا کہ کہیں 9/11 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے طیارے سے ٹکرانے کی طرز کا کوئی واقعہ تو رونما نہیں ہونے جارہا جس پر برطانوی فضائیہ حرکت میں آئی اور اس نے پی آئی اے کے طیارے کو گھیرے میں لے کر لندن کے مضافاتی ایئرپورٹ پر اتارا۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر کے میڈیا میں پھیل گئی اور پاکستان کی قومی ایئر لائن کے طیارے کو برطانوی فضائیہ کے جنگی طیاروں کے حصار میں بار بار ”بریکنگ نیوز“ کے طور پر دکھایا جانے لگا۔ طیارے کی مکمل تلاشی کے بعد دہشت گردی کے ثبوت نہ ملنے پر طیارے کو 10گھنٹے بعد مانچسٹر جانے کی اجازت دی گئی اور سیکورٹی اہلکاروں کو یہ بیان دینا پڑا کہ واقعہ دہشت گردی نہیں بلکہ صرف مجرمانہ فعل تھا مگر اس وقت تک قومی ایئر لائن کا امیج بری طرح متاثر اور ایئر لائن کو ہنگامی لینڈنگ، سروسز اور10گھنٹے تک طیارے کو سیکورٹی اہلکاروں کی حراست میں رہنے کے سبب لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو چکا تھا۔میں نے جب اس واقعے کے بارے میں پی آئی اے کے ترجمان مشہود تاجور سے تفصیلات چاہیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے پی آئی اے کے پائلٹ نے بین الاقوامی قانون SOP کے مطابق کنٹرول ٹاور سے مدد طلب کرکے ٹھیک قدم اٹھایا جبکہ پی آئی اے کے ایک سینئر پائلٹ کی رائے اس کے برعکس تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ طیارے میں مسافروں کا لڑائی جھگڑا اور عملے سے توتکار معمول کی بات ہے اور ایسے میں جب طیارے کو اپنی منزل مقصود پر اترنے میں تھوڑا وقت درکار تھا تو ایک معمولی واقعہ کو سنسنی خیز بنا کر لندن ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس بارے میں آگاہ کرنا کسی طرح بھی درست اقدام نہیں تھا۔ انہوں نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ طیارے کے کیپٹن کو ایک فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور اس کے پاس ایف آئی آر کی طرز کا ایک فارم ہوتا ہے جسے پُر کرکے دوران پرواز نقص امن پیدا کرنے والے مسافر کے اطراف بیٹھے دیگر مسافروں سے گواہی کے طور پر دستخط لئے جاتے ہیں اور مرتکب مسافر کو ہتھکڑی بھی لگائی جاسکتی ہے اور طیارے کی لینڈنگ کے بعد مذکورہ مسافر کو ایئر پورٹ پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں اگر پائلٹ پیشہ وارانہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح کی حکمت عملی اپناتا اور طیارے کو مانچسٹر ایئرپورٹ پر لینڈ ہونے کے بعد جھگڑا کرنے والے مسافروں کی شکایت ایئرپورٹ پولیس سے کرتا تو وہ انہیں گرفتار کر لیتی کیونکہ دنیا بھر کی دیگر ایئر لائنز شراب کے نشے میں بے قابو مسافروں سے اسی طرح نمٹتی ہیں۔
قومی ایئر لائن کو چاہئے کہ وہ فضائی عملے کو مختلف مزاج اور علاقوں کے مسافروں سے ڈیل کرنے کی خصوصی تربیت دے تاکہ وہ مسافروں سے ہتک آمیز رویہ اختیار نہ کریں اور معمولی باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں جبکہ مسافر طیاروں کے پائلٹس کو بھی ایسی ہدایات ہوں کہ وہ گھبراہٹ اور عجلت میں کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ایئر لائن اور مسافروں کیلئے الجھن کا سبب بنے جیسا کہ حال ہی میں پی آئی اے کی فلائٹ کو لندن میں پیش آیا۔ دوسری طرف مسافروں کو بھی چاہئے کہ وہ سفر کے آداب سے آگاہی حاصل کریں، دوران سفر صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی خدمت پر مامور فضائی عملے کو اپنا ذاتی ملازم نہ سمجھیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ مسافروں کا طیارے کے عملے کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ ہوتا ہے جبکہ یہی مسافر جب کسی بین الاقوامی ایئر لائنز سے سفر کرتے ہیں تو ان کے رویّے میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مذکورہ واقعے کے ذمہ دار آیا وہ 2 مسافر ہیں جن کے غلط رویّے کے باعث دیگر مسافروں کو پریشانی اٹھانا پڑی یا پی آئی اے کا پائلٹ جس نے ایک معمولی واقعے سے مدبرانہ انداز میں نمٹنے کے بجائے غیر معمولی ردعمل کا مظاہرہ کیا جس سے نہ صرف ایئر لائن کے امیج کو نقصان پہنچا بلکہ اسے مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
تازہ ترین