• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا بھر میں ماں بولی کا دن منایا جارہا ہے اور وہاں زیادہ جہاں ماں بولیوں کا دیس نکالا بدستور ہے۔ ایسے نو آزاد دیس کم رہ گئے ہیں جہاں دیسی زبانیں دربدر ہیں اور ودیسی زبانوں کا سکہ چالو ہے۔ ان بیگانہ دیسوں میں ہمارا پنجاب بھی ہے، جو خیرسے پاکستانیت اور اسلامیت کا گہوارہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہر پنجابی سوچتا تو پنجابی میں ہے اور بے ساختہ اظہار بھی ماں بولی میں کرتا ہے۔ اس کے آگے جانے اسے کیا سانپ سونگھ جاتا ہے؟ لیکن واہگہ کے اس پار کے پنجاب میں پنجابی زبان و ثقافت کا ایسا ہمہ گیر اظہار ہے کہ اِدھر کے لسانی سناٹے پہ ذہن سٹپٹا کے رہ جاتا ہے۔ آج جب اس گتھی کو پھر سے سلجھانے میں ہمہ تن مصروف تھا کہ میری گھریلو ملازمہ سعدیہ (جو بہت میٹھی وچولی پنجابی بولتی ہے) نے یہ معمہ تقریباً حل کر دیا۔ میں نے حیرانی سے اس سے پوچھا کہ تم اپنے بچوں کے ساتھ اردو کیوں بولتی ہو، تو اس نے بے ساختہ جواب دیا کہ ’’ویلے نال چلنا پیندا ہے‘‘ (وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے) میں نے وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ میرے بچے جس اسکول میں جاتے ہیں، وہاں اردو میں پڑھائی ہوتی ہے۔ اگر میں ان سے اردو نہ بولوں تو وہ اپنی کلاس میں پیچھے رہ جائیں گے۔پھر اس نے کہا کہ اگر اسے انگریزی آتی ہوتی تو وہ بچوں سے انگریزی بولتی۔ اب بیچاری سعدیہ کرے تو کیا اب اس کے بچوں کو عربی بھی پڑھائی جائے گی، لیکن پنجابی نہیں۔ ایک نیم خواندہ محنت کش نے پنجاب میں پنجابی کی دربدری کا عقدہ آسانی سے کھول کے رکھ دیا جو پنجابی خواص مصلحتاً سمجھنے کو تیار نہیں۔

لیکن پنجابی زبان کا ہمارا معمہ ایسا سادہ بھی نہیں۔ یہ کہیں زیادہ گنجلک اور بہت سے تاریخی مخمصوں کا پرتو ہے۔ برصغیر کی تاریخ بیرونی حملہ آوروں سے عبارت ہے۔ جس میں آریائوں سے لے کر مغل، ترک، افغان، بزنطینی ، ولندیزی، انگریز اور جانے کہاں کہاں سے حملہ آور آتے اور جاتے رہے۔ آریائی ہوں، یا مسلمان یا پھر انگریز سبھی ایک کالونیل برڈن لیے تھے کہ اپنی تہذیب ہندوستانیوں پر مسلط کریں۔ ایک ہزار برس تک حکمرانی کے دوران وسط اور جنوب مغربی ایشیائی حملہ آوروں نے برصغیر میں اسلام اور فارسی کو فروغ دیا اور اپنی کلچرل بالادستی قائم کی لیکن اس مفروضاتی اور نوآبادیاتی بنیاد پر کہ برصغیر کی ثقافت اور زبانیں کمتر اور ناپاک ہیں اور یہ کہ ان کا مفتوح دھرتی سے تعلق مال غنیمہ کا ہے۔ یہ بھگتی لہر اور صوفیا کرام کی دین ہے کہ انہوں نے مقامی زبانوں کو گلے سے لگایا اور انسانیت دوستی کے نغمے گائے۔ اسلام بھی انڈین اسلام اور ہندوستان مسلم انڈیا کہلایا جیسے برٹش انڈیا۔ دیدانت اور وحدت الوجود کی روایات نے باہم مل کر نئی نامیاتی دنیا بُنی۔ لیکن دومتوازی معاشرے باہمی طورپر لاشریک (Mutually Exclusive ) رہے۔ مسلم شناخت کا مطلب، ہندوستان سے تاریخی و ثقافتی و مذہبی بیگانگی رہا ۔ 1857کی جنگ آزادی میں ہندو مسلم مل کر لڑے تو مگر وجوہات مختلف تھیں کہ گولیوں پر سور کی چربی تھی یا پھر گائے کی۔ قومی آزادی کی جنگ میں قوم پرست علما نے انڈین نیشنلزم سے الحاق تو کیا، لیکن اپنی اسلامی روایت پسندی پہ قائم رہتے ہوئے اور جدیدیت کو رد کرتے ہوئے۔ دو قومی نظریہ مقبول ہوا بھی تو اقلیتی مسلم صوبوں کے مسلمانوں میں یا پھر مشرقی بنگال میں۔ دو قومی نظریہ پر برصغیر مذہبی بنیاد پر تقسیم ہوگیا اور مسلم ریاست بنی بھی تو مسلم اکثریتی علاقوں میں بنگال اور پنجاب کی ناجائز تقسیم کی بنیاد پر ۔اب مسلمانیت کی بنیاد پرقومی ریاست وجود میں آئی۔ ایک مسلم قوم ایک مرکز ایک قومی زبان (اردو) اور ایک دین (اسلام) سے نظریہ پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ قومی تعمیر کا یہی نظریہ تھا جو (1973ء کے آئین میں ثقافتی و مذہبی کثرت کو تسلیم کرنے کے باوجود) ابھی بھی جاری ہے۔

قیام پاکستان کے بعد نوآبادیاتی دور کا وائس رائے یا گورنر جنرل کا نوکر شاہانہ نظام چلتا رہا اور پنجابی مہاجر خواص نے اس سے مل کر پاور اسٹرکچر کی تشکیل کی۔ اس کے لیے پنجابی اشرافیہ نے پنجابی خلوت اور تشخص کو اپنے بالادستی کے مفادات پہ قربان کردیا۔ یوں کہیے کہ پنجابیوں کی پنجابی سے بیگانگی، پنجاب اور وادی سندھ کی تہذیب سے طلاق، پاکستانیت سے نکاح کی لازمی شرط ٹھہری ۔ جس میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اب عربی بھی لازمی قرار پائی۔ زبان کے سوال پہ بنگالیوں اور سندھیوں کو بہت پہلے سے تاریخی ہوش آگیا تھا اور وہ اپنی تاریخی جڑوں کی جانب پلٹ گئے۔ سندھ کو سندھی نصیب ہوئی اور وفاق میں شراکت بھی جس سے سندھو دیشی بیروزگار ہوگئے۔ باقی صوبوں میں لسانی قوم پرستی کی جگہ نسلیاتی قوم پرستی حاوی رہی۔ پختونوں اور پختون قوم پرستوں کے لیے کراچی تا قندھار تجارت باعث تشفی بنی، جبکہ بلوچ اپنے وجود کے تحفظ کی جدوجہد میں اپنے ہی سرداروں کے طفیلی پن کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں یا پھر بیگانہ ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھار پنجابیت بھی جوش میں آجاتی ہے اور جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ تو لگتا ہے لیکن اپنی ہی حصہ دار مقتدرہ کے خلاف اور پھر ٹھس ہوکے رہ جاتا ہے۔ پنجابیوں کی پنجابی سے بیگانگی کے خلاف کوئی رنجیت سنگھ کو یاد کرے بھی تو پنجاب کی خونیں تقسیم آڑے آجاتی ہے۔ پنجابی سندھی صوفی شاعروں کی کافیوں پہ تو پنجابی امرا خوب جھوم جھوم جاتے ہیں، لیکن پنجابی بارے سطحی کلچر کے کمپلیکس سے نہیں نکل پاتے۔ اتنے امیر ثقافتی، ادبی، لسانی اور تاریخی ورثہ کی بے قدری پہ آپ کیسے مہذب کہلا سکتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے زمانے میں انگریزی اور چینی زبانیں عالمی کاروباری ضرورت ہیں لیکن انہیں قومی تشخص کی علامت کوئی کیسے قرار دے سکتا ہے یا پھر اردو کو جس کی کوئی زمین نہیں۔ رابطے کی زبان تو رابطوں ہی میں بنتی ہے، اس پر کسی کو کیا اعتراض۔ بیگانگی کے اس تیرہ ماحول میں ہمارے پنجابی دانشور اور ادیب ماں بولی کے دئیے جلائے رکھتے ہیں اور صوفیا کی روحانی گود میں کافیوں کی لوریاں سن سن کر کیسے کیسے انقلابی خواب بنتے ادھیڑتے رہتے ہیں۔ اس پنجاب کے عظیم لکھاری اور سوجھوان میرے دیرینہ رفیق نجم سید 150کے قریب نظموں، ڈراموں اور تنقیدی مضامین پہ مبنی جلدیں تحریر کرچکے ہیں اور ان کے سینکڑوں شاگرد بھی پنجابی بولی کی سیوا میں جتے ہیں ، لیکن اس پنجاب ثقافتی سناٹے میں انہیں پڑھنے سننے والے سینکڑوں میں ہیں جبکہ مشرقی پنجاب میں انہیں لاکھوں لوگ پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں کہ وہاں پنجابی بولنا، پڑھنا، لکھنا قومی شعار میں شامل ہے۔ جو یہاں لو کلچر ہے وہاں ہا ئی کلچر یہ بھی پنجاب کی تقسیم کا ایک المیہ ہے کہ یہاں پنجابی ماں بولی کا دیس نکالا ہوا۔

تازہ ترین