• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا ہمارا خواب بھی ہے اور آپ کا بھی۔ نظام حکومت میں تسلسل آپ کی خواہش بھی ہے اور ہماری بھی۔ تبدیلی کے خواہش مند ہم بھی ہیں آپ بھی، کرپشن کے مخالف آپ بھی ہیں ہم بھی۔

 قبضہ مافیا کے خلاف ہم بھی ہیں آپ بھی ایکشن میں دکھائی دیتے ہیں، نوجوانوں کوروز گار دینا، انہیں طاقت ور بنانا آپ کا خواب بھی ہے ہمارا بھی، خواتین کے حقوق کی پاسداری ہم بھی چاہتے ہیں اور آپ بھی، کرپشن کا خاتمہ آپ کی اولین ترجیح اور ہماری بھی، احتساب آپ بھی چاہتے ہیں اور انصاف کے طلب گار ہم بھی ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ آپ بھی لگاتے ہیں ہم بھی۔ تو پھر ہمارا اور آپ کا اختلاف کیوں؟ 

جب جمہوریت کی آڑ میں آمریت امڈ آتی ہے،تو نظام کی تبدیلی کے جھانسے میں پرانے بوسیدہ نظام سے بھی بدتر فیصلے کئے جانے لگتے ہیں، کرپشن مکاؤ کے نام پر کرپشن کے درجے اور ریٹ بڑھنے لگتے ہیں،پڑھے لکھے بے روز گار نوجوان نوکری کی تلاش میں سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

خواتین کے حقوق کے نام پر سر عام عزتیں پامال اور بیٹیاں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں تو پھر دل سے یہی آہ نکلتی ہے کہ یا تبدیلی تیرا ای آسرا۔ 

کہ یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ جب ایسی سیاسی جماعتیں جو خواہشات ، خوابوں کے بل بوتے پر بیساکھیوں کے سہارے عوام میں وقتی طور پر قبول عام کا مقام و مرتبہ پاتی ہیں اور کبھی کبھار داؤ لگنے پر برسراقتدار بھی آجاتی ہیں، ان کی قیادتیں صاحب اقتدار ہوتے ہی خوشامدیوںاور چاپلوسوں کے چنگل میں ایسی گرفتار ہوتی ہیں کہ نہ انہیں عوام یاد رہتے ہیں نہ ہی اپنے وفادار کارکن جن کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ یہ مقام حاصل کرتی ہیں۔ 

ان کی ترجیحات وقت کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہیں اور اپنے وفادار جاںنثار کارکنوں پر صدقے کے بکروں کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں نامراد ہی قرار پاتی ہیں۔ 

آج ہر طرف سینیٹ انتخابات کا چرچا ہے اور 2018 کے سینیٹ انتخابات کے دوران تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا اسمبلی کے کرپٹ اراکین کے وڈیو اسکینڈل کا شور شرابہ ہے۔ ایسے میں پارسائی کا لبادہ اوڑھے جو اراکین اسمبلی موج مستی کر رہے تھے ان کے اصل چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ 

صرف الزام تراشیاں ہی ہو رہی ہیں جبکہ نوٹوں کے ڈھیروں پر سجدہ ریز ہونے والے قومی مجرموں کے چہرے صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ سر عام گھوڑوں، گدھوں کی خریداری کی جارہی ہے اور عوام کا ووٹ بیچنے والوں کے نام لئے جارہے ہیں۔ 

بکنے والوں کی اکثریت حکمران جماعت تحریک انصاف کے کرتا دھرتاؤں کی ہے پھر بھی ہمارے خان اعظم سارا الزام اپوزیشن پر ہی تھوپے جا رہے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ انصاف، احتساب کے نعرے پر کھڑی تحریک انصاف کی یہ حکومت انصاف بھی اپنی مرضی کا چاہتی ہے اور احتساب بھی۔ 

یقین نہ آئے تو ویڈیو اسکینڈل پر حکومتی تحقیقاتی ٹیم کے دائرہ کار کو ہی دیکھ لیجئے کہ نہ وہ اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کو تیار ہے اور نہ ہی ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرانا چاہتی ہے جبکہ رشوت لینے والے ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک سابق اسپیکر خیبرپختونخوا اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کے ایما پر کیا گیا جبکہ حکومتی تحقیقاتی ٹیم ان دونوں کو تحقیقات سے قبل ہی بری الزمہ قرار دے چکی ہے اور پھر یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ قومی مجرموں کے خلاف پارٹی سطح پر ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔ 

عجب تماشا ہے ، یہ ٹریڈنگ روکنے کے لئے صدارتی آرڈیننس بھی آجاتا ہے ، سپریم کورٹ سے مدد بھی طلب کی جاتی ہے اور دوران سماعت اوپن بیلٹ پر دلائل بھی دیئے جاتے ہیں لیکن معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔ سینیٹ انتخابات کے آخری کھڑکی توڑ ہفتے چل رہے ہیں۔ 

صاحبان اقتدار و اختیار ابھی تک اعلیٰ عدلیہ سے یہی رائے طلب کر رہے ہیں کہ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں یا خفیہ ووٹنگ کے پرانے طریقہ کار سے۔ 

حکمرانوں کے خوف کا اندازہ تو صدارتی آرڈیننس کے نفاذ سے ہی ہوگیا تھالیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انتخابی عمل شروع ہو جائے امیدواروں کے نام، کاغذات نامزدگی کی وصولی، منظوری، مسترد کرنے کے مراحل تک طے ہونے کے بعد چار امیدوار بلامقابلہ منتخب بھی ہو جائیں تو کیا آئین پاکستان کے تحت مروجہ قوانین، اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ انتخابی عمل کے آخری مرحلے میں کوئی ایسا فیصلہ صادر کر دیا جائے جو پُورے عدالتی اور انتخابی نظام پر سوالیہ نشان بن جائے اور براہ راست نتائج پر اثر انداز ہو؟ 

دوران سماعت اعلیٰ عدلیہ کے ریمارکس چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل اپنی جگہ لیکن عدلیہ کے سامنے جہاں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے نام پر رائے مانگی جارہی ہے وہاں اسی کیس میں 2018 کےسینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی وڈیو بھی زیر بحث ہے جس کی بنیاد پر ہی یہ کیس آگے بڑھ رہا ہے تو پھر اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کہ قدرت آپ کو بار بار موقع دے رہی ہے کہ نئے پاکستان کی ٹیڑھی بنیادیں ٹھیک کرلیں۔ 

اعلیٰ عدلیہ اس کیس میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وڈیو اسکینڈل کی عدالتی تحقیقات کو آگے بڑھا کر اپنا قومی کردار ادا کرے تاکہ آئندہ کوئی پارٹی لیڈر یا گروہ انتخابی عمل کو پیسے کے بل بوتے پر ہائی جیک کرکے اقتدار میں آنے یا اقتدار بچانے کی کوشش نہ کرسکے اور ہمارے پیارے وطن کو جو ووٹ سے معرض وجود میں آیا ہے ووٹ کے تقدس سے آئندہ کبھی محروم نہ ہونا پڑے۔

تازہ ترین