• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ترکی اور پاکستان یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی طور پر گہرے،بے مثال تعلقات ہم لوگوں کا ایسا اثاثہ ہیں جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان موجود ان مخلصانہ روابط کو دنیا کو سمجھانے سے قاصر ہیں کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ان دو ممالک جتنی قربت دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مجھے بچپن ہی سے پاکستان سے گہری محبت رہی ہے اور میں اسی محبت کو فروغ دیتے ہوئے پلا بڑھا ہوں ۔ میرے دل میں پاکستان کو جو بلند مقام حاصل ہے میں اسے اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں“۔ یہ الفاظ ترکی کے صدر عبداللہ گل اکثر و بیشتر پاکستان سے ترکی آئے ہوئے وفود اور مہمانوں کو شرفِ ملاقات بخشتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ان الفاظ کو ادا کرتے وقت صدر عبداللہ گل کی آنکھوں سے جو محبت جھلکتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی دیگر رہنما کی آنکھوں سے ایسی محبت جھلکتی ہو۔
دنیا میں ترکی واحد ملک ہے جہاں پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو اتنی عزت اور احترام دیا جاتا ہے کہ وہ خود بھی اتنی عزت اور احترام دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کے جو رہنما بھی دنیا کے دیگر ممالک سے ہو کر ترکی تشریف لاتے ہیں تو ترکوں کی محبت اور چاہت سے متاثر ہوئے بغیر ان کی واپسی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ ترک پاکستان سے والہانہ لگاؤ کے لئے اس محاورے کو استعمال کرتے ہیں ”پاکستان کا نام آتے ہی بہتا پانی تک رک جاتا ہے“۔ جس سے ان کی محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔
مذہب اور مسلک کے لحاظ سے پاکستان ہمیشہ ہی ترکی کے بہت قریب رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت سنی حنفی مسلک سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں مالک کے عقائد میں کوئی زیادہ فرق نہیں پایا جاتا جو دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
ترکی اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ سلطنت ِ عثمانیہ، اس کے عروج، زوال اور پھر ترکی کی جنگ نجات، جمہوریہ ترکی کے قیام اور بعد تک کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ترکی کی جنگِ نجات (جنگِ آزادی 1922ء۔ 1919ء) کے دوران جس طریقے سے ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکوں کی مدد کی اور خاص طور پر مسلمان خواتین نے اپنے زیورات ترکوں پر فدا کر دیئے اس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔ ترکوں کو ہر ممکنہ امداد پہنچانے کیلئے دوڑ لگی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں غربت کے مارے ہندوستان کے مسلمانوں نے زیورات اتنی بڑی تعداد میں جمع کئے کہ ہندوستان میں اس سے قبل اتنی بڑی مقدار میں یہ زیورات اور اتنی بڑی مقدار میں رقم جمع ہی نہ ہوئی تھی۔ اس وقت اِس رقم کو جنگ نجات کے رہبر و رہنما غازی مصطفی کمال اتاترک تک انتہائی کٹھن حالات میں پہنچایا۔ جسے اسلحہ تیار کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور باقی ماندہ رقم کو اتاترک ہی کے حکم سے ترکی کے اِش بینک کے بنیادی سرمائے کیلئے استعمال کیا گیا اور یہ بینک آج بھی ترکی کے سب سے بڑے تجارتی بینک کے طور پر خدمات فراہم کررہا ہے۔
ہم نے پاکستان سے ترکوں کی گہری، والہانہ محبت کا اظہار اس وقت بھی دیکھا تھا جب سن 2005ء میں پاکستان میں شدید زلزلہ آیا تھا اور ترک باشندوں کی راتوں کی نیند غائب ہوگئی تھی اور انہوں نے ترکی بھر میں پاکستان کے لئے امدادی مہم کا آغاز کرتے ہوئے بھاری مقدار جمع کر لی اور پھر اس رقم اور امدادی سازو سامان کو لے کر پاکستان پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف اپنے ہاتھوں سے زخمیوں کا علاج معالجہ کیا بلکہ ان کو بسانے اور اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے تک پاکستان ہی میں قیام کیا۔
مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ قبرص دونوں ممالک ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے موقف کی مکمل حمایت کرتے چلے آئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں مددگار ہونے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے لحاظ سے شاید ہی کسی دیگر ملک نے پاکستان کی اس قدر کھل کر حمایت کی ہو جس قدر ترکی نے کی ہے۔ ترکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ، مختلف بین الاقوامی اداروں اور تنظیم اسلامی کانفرنس میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناتے ہندوستان کی ناراضی کی پروا کئے بغیر پاکستان کے موقف کی جس طریقے سے ترجمانی کی ہے اور اسے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جس طریقے سے پیش کیا اس سے ترکی کی محبت پاکستانیوں کے دل پر نقوش ہو کر رہ گئی ہے۔ ترکی کی اس محبت اور چاہت کا پاکستان نے بھی ہمیشہ دو قدم آگے بڑھ کر جواب دیا ہے۔ پاکستان نے اس وقت ترکی کا مکمل اور بھرپور ساتھ دیا جب تمام ممالک اس سے منہ موڑ چکے تھے۔ جنگ ِ قبرص کے موقع پر پاکستان نے ترکی کو نہ صرف جنگی طیاروں اور جنگی سازو سامان کی مدد کی تھی بلکہ اقوام ِ متحدہ اور عالمی پلیٹ فارم پر ترکی کے کیس کو جس طریقے سے پیش کیا تھا اس سے اس نے ترکوں کے دل جیت لئے تھے اور پھر پاکستان میں پہلی بار شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے سفارت خانے ( یونان کے شدید احتجاج کے باوجود) کو کھولنے کی اجازت دیکر اپنی دوستی کا ثبوت فراہم کر دیا تھا اور اسی طرح جب مغربی ممالک، ترکی کے مشرقی اور جنوب مشرقی حصے میں کردوں کی بغاوت کو ہوا دے رہے تھے صرف پاکستان ہی ترکی کی مدد کو دوڑا تھا اور ہر ممکنہ فوجی سازو سامان بھی فراہم کیا تھا۔
ترکوں اور پاکستانیوں کی محبت کی کئی ایک مثالوں کو پیش کر سکتا ہوں لیکن جگہ کی کمی کے باعث صرف اپنی ایک مثال سے پیش کررہا ہوں۔ میں ترکی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حکومتِ ترکی کی اسکالرشپ پر جب ترکی آیا تو مجھے یہاں پر ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی جسے دیکھ کر دیگر ممالک کے طلبا بڑے متاثر ہوئے کیونکہ یہ سہولتیں دیگر ممالک کے طلبا کے مقابلے میں بہت زیادہ تھیں جس پر دیگر ممالک کے طلبا رشک کیا کرتے تھے اور پھر ان کو بڑی حیرت ہوتی جب وزارتِ تعلیم کا ڈائریکٹر جنرل خود اپنے کمرے میں بلوا کر چائے وغیرہ پیش کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے اسکالرشپ دینے میں فخر محسوس کرتا۔ پاکستانیوں کو جو عزت اور احترام ترکی میں ملتا رہا ہے وہ شاید ہی کسی اور ملک میں نصیب ہوتا ہو۔
لیکن اب اس محبت کو نظر لگنا شروع ہوگئی ہے اور حالات یکسر تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کیا اس کی وجہ پاکستان کے اپنے حالات تو نہیں ہیں؟ پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے واقعات اور انتہا پسندی نے ترکوں کو بھی پاکستان سے متعلق رویّے میں تبدیلی پر مجبور کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ترکی میں آج تک مختلف ممالک اور ان کے عوام کی پسندیدگی سے متعلق جتنے بھی سروے کرائے گئے ہیں ان میں پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو پسندیدگی کے لحاظ سے ہمیشہ ہی پہلی، دوسری یا پھر تیسری پوزیشن حاصل رہی ہے جبکہ اس بار بی بی سی ورلڈ کی جانب سے ترکی اور دیگر چھبیس ممالک میں ترکوں کے درمیان کرائے جانیوالے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ترک جن ممالک کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں ان میں اسرائیل ، ایران اور فرانس کے بعد پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ پہلی بار اس قسم کے سروے کے نتائج آنے پر ترکی کے تمام ہی اخبارات نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور اس سروے میں کی جانیوالی غلطی یا پھر بی بی سی ورلڈ کی جانب سے کرائے جانیوالے سروے کو ایک سازش بھی قرار دے رہے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان موجود محبت اور چاہت کو نقصان پہنچایا جاسکے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنا بڑے دہچکے پر حکومتِ پاکستان اور حکومتِ ترکی کس قسم کا ردِعمل ظاہر کرتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جو تاریخی روابط چلے آرہے ہیں ان کو پٹڑی پر لانے اور دونوں ممالک کے عوام کو دوبارہ سے شیرو شکر کرنے کیلئے کیا اقدامات کرتی ہیں؟
مسلم لیگ نون جو جلد ہی حکومت تشکیل دینے والی ہے اور جو طالبان سے مذاکرات کرنے میں کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے ان تعلقات کو فروغ دینے میں اور دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ( جو جون کے پہلے ہفتے میں حلف اٹھا لیں گے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف (جو چھ جون کو حلف اٹھائیں گے) جن کے ترکی سے پہلے ہی بڑے گہرے مراسم ہیں ان تعلقات کو مضبوط بنانے اور ترک عوام کے دل جیتنے کے لئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں؟
تازہ ترین