• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی پر میں پہلے بھی آرٹیکل لکھ چکا ہوں۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال پاکستان میں مسلسل تیسرے سال کاٹن کی پیداوار میں جنوری تک 34فیصد کمی سے صرف 5.5ملین بیلز کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال سے 3ملین بیلز اور 30برسوں میں سب سے کم ہے۔ گزشتہ سال ہماری کاٹن کی پیداوار 8.5ملین بیلز تھی۔ ہماری کاٹن کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 14ملین بیلز اور اوسطاً 12سے 13ملین بیلز رہی جسے دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار کے خاتمے کی شروعات ہوچکی ہے جبکہ بھارت میں کاٹن کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انڈین کاٹن ایسوسی ایشن کے مطابق 2019-20میں بھارت کی کاٹن کی پیداوار 36ملین بیلز تھی۔ بھارت دنیا میں امریکہ اور برازیل کے بعد کاٹن ایکسپورٹ کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے اور دنیا میں کاٹن کی پیداوار کا 25فیصد حصہ رکھتا ہے۔ بھارت نے بی ٹی کاٹن کے جدید بیج استعمال کرکے اپنی کاٹن پیداوار کو چند سالوں میں دگنا کرلیا ہے جبکہ ہم کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی سے 13ملین بیلز سے 5.5ملین بیلز کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں جس کی وجہ غیرمعیاری بیج اور ادویات ہیں جس کے باعث کپاس کے کاشتکار گنے اور دوسری فصلوں کی کاشت پر منتقل ہورہے ہیں۔ کاٹن کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیلز ٹیکس بچانے کیلئے اس سال کافی کاٹن کیش پر Unofficiallyخریدی گئی جو کاٹن کی آفیشل پیداوار میں شامل نہیں ہے۔ اس عمل کو روکنے کیلئے ٹیکسٹائل کو زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس کرنا ہوگا۔

کپاس قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کے سب سے اہم ٹیکسٹائل سیکٹر کا دارومدار کپاس کی پیداوار پر ہے۔ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کی مجموعی ایکسپورٹ کا 60فیصد اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 40فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں اس سیکٹر کا شیئر 9سے 10فیصد ہے۔ کپاس ٹیکسٹائل کا خام مال ہے جس سے ٹیکسٹائل کی مختلف مصنوعات بناکر ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ چند سال پہلے تک ہم دنیا میں کاٹن یارن کے دوسرے بڑے ایکسپورٹر تھے۔ کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی اور پاک بھارت تجارت بند ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر سال 2ارب ڈالر کی کپاس برازیل اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرنا پڑرہی ہے اور ہر سال کاٹن امپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ مقامی مارکیٹ میں کپاس کی کمی کے باعث کاٹن کی قیمتیں 11ہزار روپے فی من سے زائد تک پہنچ چکی ہیں جس کی وجہ سے کاٹن یارن کی قیمتوں میں بھی 40فیصد اضافہ ہوا ہے جو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں ہماری مقابلاتی سکت متاثر کررہا ہے۔ کاٹن کی کاشت کے رقبے اور پیداوار بڑھانے کیلئے حکومت کو خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں کپاس کی کاشت کیلئے مراعات دینا ہوں گی۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس سال صرف 2.5ملین ہیکڑ رقبے پر کاٹن کاشت کی گئی ہے جو 1982کے بعد سے کاٹن کی کاشت کا کم ترین رقبہ ہے جبکہ چند سال پہلے پاکستان میں کاٹن کی کاشت کا رقبہ 3.2ملین ہیکڑ تھا۔ اس کے برعکس آج بھارت 12ملین ہیکڑ رقبے پر کاٹن کی کاشت کرکے دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ دنیا میں کاٹن کی پیداوار میں بھارت کا حصہ 25فیصد ہے جبکہ دوسرے نمبر پر چین 23فیصد، تیسرے نمبر پر امریکہ 15فیصد اور چوتھے نمبر پر برازیل کا 10فیصد حصہ ہے، یہ چاروں ممالک دنیا کا 73فیصد کاٹن پیدا کرتے ہیں۔

پنجاب میں اس سال جنوری کے آخر تک 3.4ملین بیلز کپاس پیدا ہوئی ہے جبکہ گزشتہ سال پنجاب میں اسی دورانئےمیں کپاس کی پیداوار 5ملین بیلز سے زیادہ تھی۔ اس لحاظ سے اس سال پنجاب میں 31.5فیصد کپاس کی کم پیداوار ہوئی جبکہ سندھ میں اس سال کپاس کی پیداوار 2.1ملین بیلز ہوئی ہےجبکہ گزشتہ سال اس کی پیداوار 3.5ملین بیلز تھی۔ اس طرح اس سال سندھ میں کپاس 38.5فیصد کم پیدا ہوئی۔ کاٹن ایکسپرٹ نسیم عثمان کے مطابق 2021میں کاٹن کی شارٹ فال 4.5سے 5.5ملین بیلز تک پہنچ سکتی ہے، ہماری ٹیکسٹائل صنعت نے رواں مالی سال جولائی سے دسمبر تک ایک ارب ڈالر کی کپاس امپورٹ کی جبکہ گزشتہ مالی سال اسی دورانیے میں 543ملین ڈالر کی کپاس امپورٹ کئی گئی تھی۔ نسیم عثمان کے مطابق جون 2021تک کاٹن کی امپورٹ 3ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ کاٹن امپورٹ کرنے میں کپاس کی قیمت میں تقریباً 15 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے جو پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

وزیراعظم زراعت کیلئے نئے پیکیج کا اعلان کرنے والے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ پیکیج میں کاٹن کی پیداوار بڑھانے کیلئے مراعات دی جائیں، کپاس کے کاشتکاروں کو نقلی بیج اور ادویات کی سپلائی کو روکا جائے اور کاٹن کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے اصلی بیجوں اور ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ کاشتکار کپاس کی کاشت کو ترجیح دیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ایگریکلچر ریسرچ اداروں نے کپاس کے نئے بیج دریافت نہیں کئے اور نہ ہی حکومت نے بی ٹی کاٹن جیسے زیادہ فی ایکڑ پیداوار والے بیجوں کو پاکستان میں سرکاری طور پر متعارف کرایا ہے جبکہ کاٹن میں آلودگی کی روک تھام کیلئے بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ کاٹن کی مسلسل پیداوار میں کمی سے 13ارب ڈالر ایکسپورٹ اور مینوفیکچرنگ میں سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا اہم ٹیکسٹائل سیکٹر بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی خام مال ہونے کی وجہ سے صنعت کو کپاس کی سالانہ کم از کم 11ملین بیلز کھپت ہے جس کی مقامی سطح پر دستیابی حکومت کو یقینی بنانا ہوگی۔

تازہ ترین