• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کئے گئے تازہ اعداد و شمار قومی سیاست کے مطالعہ کا نہایت دلچسپ مواد فراہم کررہے ہیں۔ نشستوں کے اعتبار سے مسلم لیگ (ن) پہلے، پیپلزپارٹی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے جبکہ حاصل کردہ ووٹوں کے حوالے سے تحریک انصاف کا نمبر دوسرا اور پیپلزپارٹی کا تیسرا ہے۔ قومی اسمبلی کے لئے مسلم لیگ (ن) کو 1,48,74104 (ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ سے زائد) تحریک انصاف کو 76,79954 (چھہتر لاکھ سے زائد) اور پیپلز پارٹی کو 69,11218 (انہتر لاکھ سے زائد) ووٹ ملے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو 2008ء کے انتخابات میں 6785013 (سڑسٹھ لاکھ سے زائد) ووٹ ملے تھے۔ تب مسلم لیگ (ق)نے 80,06043 (اسّی لاکھ سے زائد) ووٹ لئے تھے۔ اب کے یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک تو اپنی جگہ موجود رہا لیکن مسلم لیگ (ق) کے ووٹرز اجتماعی ہجرت کرکے ن سے جا ملے۔ اگر 2008ء میں دونوں جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ یکجا کرلئے جائیں تو تقریباً وہی تعداد بنتی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی۔ پیپلزپارٹی 2008ء میں 1,0666542 (ایک کروڑ سے زائد) ووٹ لئے تھے۔ اس مرتبہ اسے صرف 6911218 (انہتر ہزار سے زائد) ووٹ ملے۔ اس کے ووٹوں میں ہونے والی اکتیس لاکھ کے لگ بھگ کمی عمران خان کی تجوری کا حصہ بن گئی۔ اس مرتبہ ووٹرز کی تعداد میں ایک کروڑ کے لگ بھگ اضافہ ہوا۔ اس اضافہ شدہ ووٹ میں سے 46 فی صد کے لگ بھگ خان صاحب کے حصے میں آئے۔54 فی صد ادھر ادھر بکھر گئے۔ مسلم لیگ (ق) نے 2008ء میں 80 لاکھ سے زائد ووٹ لئے تھے، اس مرتبہ وہ سکڑ کر 14 لاکھ ووٹوں تک محدود ہوگئی۔
میں ایک بات مسلسل لکھتا رہا ہوں کہ ہمارے مخصوص سیاسی و سماجی احوال و کوائف کی بنا پر رائے عامہ کے انتخابی جائزے زیادہ معتبر نہیں ہوتے لیکن انہیں کلی طور پر مسترد یا نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ معروف امریکی ادارے آئی آر آئی نے غالباً 2011ء کے اواخر میں ایک سروے رپورٹ شائع کی جس میں عمران خان اور ان کی جماعت کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر دکھایا گیا۔ تحریک انصاف نے اس سروے کو اس قدر اچھالا کہ میڈیا میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ”طفلانِ فیس بک“ نے وہ اودھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔ اسی آئی آر آئی نے نومبر 2012ء میں کرائے گئے پول کے نتائج شائع کئے تو پی ٹی آئی نے اسے سینگوں میں پرولیا۔ خود خان صاحب نے سنگِ الزام برساتے ہوئے کہا کہ آر آئی آر شریف خاندان سے مل گیا ہے۔ آر آئی آر نے اپنے سروے کی روشنی میں بتایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) قومی سطح پر 32 فی صد، تحریک انصاف 18فی صد، پیپلز پارٹی 14 فی صد اور مسلم لیگ (ق) 2 فی صد ووٹ لے گی۔ اس کے کوئی دو ماہ بعد گیلپ پاکستان کا سروے سامنے آیا جس میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً یہی منظر نامہ ابھر رہا تھا۔ مارچ 2013 میں گیلپ نے آئی آر آئی اور خود اپنے پول کی اوسط پر مبنی انتخابی موسم کی پیش گوئی شائع کی۔ اس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو 36.5 فی صد، تحریک انصاف کو 16فی صد، پیپلز پارٹی کو15.5 فی صد اور مسلم لیگ (ق) کو 3 فیصد ووٹ ملنے کی توقع تھی۔ تب گیلپ پول کا سینہ بھی چھلنی کر دیا گیا اور ہمارے دوست اعجاز شفیع گیلانی کے دامن کی دھجیاں بھی اڑا دی گئیں۔ اب آئی آر آئی اور گیلپ کے انتخابی جائزوں کو الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مقابل رکھ کے دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ دونوں اداروں کی اوسط کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو 36 فی صد ووٹ ملنے تھے، اسے 33 فیصد ووٹ ملے۔ دونوں اداروں کی اوسط کے مطابق تحریک انصاف کو 16 فی صد ووٹ ملنے تھے، اسے 16.86 ووٹ ملے۔ دونوں اداروں کی اوسط کے مطابق پیپلز پارٹی کو 15.5فی صد ووٹ ملنا تھے، اسے 15.21 فیصد ووٹ ملے۔ دونوں اداروں کی اوسط کے مطابق مسلم لیگ (ق) کو 3 فیصد ووٹ ملنا تھے، اسے 3.13 فی صد ووٹ ملے۔ انتخابات سے کئی ماہ پہلے کے ان انتخابی جائزوں اور حقیقی نتائج کے درمیان حیران کن مماثلت کے بعد اپنی اس رائے سے رجوع کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ سرویز معتبر نہیں ہوتے۔ دھاندلی کا غوغا مچانے والوں کو لمحہ بھر کے لئے سوچنا چاہئے کہ یہ تو وہی نوشتہ دیوار ہے جو آنکھیں رکھنے والوں کو بہت پہلے سے نظر آرہا تھا۔
خیبرپختونخوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے ووٹرز مستقل مزاجی کا مظاہرہ کم ہی کرتے ہیں۔ عموماً وہ ہر انتخاب میں ایک نیا تجربہ کرنے کا ذوق رکھتے ہیں۔ 2002ء میں دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کا ناقوس بجا توخیبرپختونخوا کے عوام ایک عجیب کیفیت سے سرشار گھروں سے نکلے اور اس انتخابی اتحاد کو اپنے ووٹوں سے مالا مال کردیا۔ تب ایم ایم اے نے صوبے سے چودہ لاکھ سے زائد ووٹ لئے تھے۔ تحریک انصاف تو صرف دس لاکھ سے کچھ اوپر ووٹ لے پائی ہے۔ 2008ء میں نہ ایم ایم اے رہی نہ خیبرپختونخوا کے عوام کا وہ جنون، تب انہوں نے حکمرانی کا تاج پہلی بار اے این پی کے سر رکھ دیا۔ 2013ء کے انتخابات میں اے این پی بھی گرد راہ ہوگئی اب کے عمران خان ان کا محبوب قرار پایا۔ دیکھئے آنے والے پانچ سالوں میں اس نوخیز محبت پہ کیا گزرتی ہے اور خیبرپختونخوا کے ”تازہ پسند عوام“ اگلے انتخابات میں کیا کروٹ لیتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ تبدیلی اور انقلاب کی پرچم بردار تحریک انصاف، کتنا صاف اور شفاف چلتی ہے۔ اب تک تو اس کے سارے تیور اسٹیٹس کو کی گنگا میں اشنان کرنے والی روایتی جماعتوں جیسے ہی ہیں۔ کل ایک جہاں دیدہ دوست کہہ رہا تھا، اگر اتنے ارکان کے ساتھ مولانا فضل الرحمن، شیر پاؤ، اسفند یار ولی اور پیر صابر شاہ کو حکومت بنانا پڑتی تو بالکل یہی کچھ کرتے جو ”صاف چلی شفاف چلی“ کررہی ہے۔
تحریک انصاف اگر ٹھنڈے دل سے غور کرتی تو اس کے لئے آسودگی کا خاصا سامان تھا لیکن خان صاحب سے لے کر نونہالانِ فیس بک تک سب طے کئے بیٹھے تھے کہ سونامی واقعی آرہا ہے جس میں سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور تحریک انصاف فتح کے پھریرے لہراتی اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو جائے گی۔ اس نے ایسا پروپیگنڈہ اٹھایا کہ در و دیوار تک لرز اٹھے۔ دولت کی فراوانی اور خفیہ کاروں کی کارستانی کے سبب میڈیا بھی دیوانہ وار خان صاحب کا ڈنکا بجانے لگا۔ ایک انگریزی کالم نگار نے درست لکھا کہ تحریک انصاف خود اپنے اٹھائے ہوئے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئی۔
معروف بھارتی خاتون صحافی برکھا دت کا ایک کالم ”ہندوستان ٹائمز“ میں شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ”اسلام آباد میں واقع اپنے فارم ہاؤس میں بیٹھے عمران خان کا اعتماد غیرمعمولی تھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اس شہر کے اندر اقتدار کی غلام گردشوں میں براجمان ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا ”جب میں کرکٹ کے میدان میں اترتا تھا تو محض جیت ہی میرے ذہن میں ہوتی تھی۔ اب میں سیاست کے میدان میں اترا ہوں تو کوئی بھی چیز میری فتح اور سونامی کو نہیں روک سکتی۔ اب میری شکست کا وقت گزر چکا ہے“۔ ذرائع ابلاغ نے انہیں ایک ایسی شخصیت کے حصار میں بند کردیا تھا جو وزیراعظم بننے جا رہی تھی اس کے برعکس ووٹنگ سے صرف بارہ گھنٹے قبل بھی عمران خان کے بڑے حریف نواز شریف کسی بھی نتیجے کے بارے میں فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔ اگرچہ انتخابات کے بعد ان کی جماعت واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری لیکن نواز شریف کے بیان میں غرور و تکبر کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں نے ان سے سوال کیا… ” کیا میں مستقبل کے وزیراعظم سے بات کررہی ہوں؟“ ان کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آئی اور تقریباً مذاق کے انداز میں بولے ”مجھے نہیں معلوم کہ میں وزیراعظم ہوں گا لیکن آپ کم از کم حزب اختلاف کے ایک رہنما سے ضرور انٹرویو کررہی ہیں“۔ حتمی نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک شخص نے اپنی ذات کا ادراک کئے بغیر اپنی کارکردگی کے متعلق نہایت ہی غیر معمولی اعتماد اور یقین کا مظاہرہ کیا جب کہ دوسرے شخص نے ایسے محتاط رویّے کا مظاہرہ کیا کہ اس کی فتح خود اس کے لئے حیرانی کا باعث بن گئی۔ ان نتائج نے یہ بھی ثابت کردیا کہ سوشل میڈیا کی اہمیت کے باوجود اسے سیاسی درجہ حرارت کا ترجمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سیاستدانوں کی توہین کرنے کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ بلند نہیں کیا جاسکتا۔
تازہ ترین