• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد واقعہ ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان میں حکومت بنانا مسلم لیگ (ن) کا حق ہے۔ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری خود کو وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش بھی کر چکے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف بلوچستان میں اپنی جماعت کی بجائے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک نہ تو سردار ہیں نہ کوئی نواب ہیں۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک آئی سرجن ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ تھے۔ تربت سے چوتھی دفعہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کی وزارت اعلیٰ میں وزیر صحت تھے اور ذوالفقار مگسی کی وزارت اعلیٰ میں وزیر تعلیم تھے۔ 2006ء میں وہ سینٹ کے رکن بنے تو سردار ثناء اللہ زہری نیشنل پارٹی میں تھے۔ بلوچستان اسمبلی کے جن چھ ارکان کے ووٹوں سے ڈاکٹر مالک سینیٹر بنے ان میں زہری صاحب بھی شامل تھے۔ 2008ء میں نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کچھ دیگر جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ سردار ثناء اللہ زہری پارٹی کے سینئر نائب صدر تھے لیکن انہوں نے پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا جس پر انہیں نیشنل پارٹی سے خارج کردیا گیا۔ سردار ثناء اللہ زہری مسلم لیگ (ن) میں آگئے اور ان کے بھائی اسرار اللہ زہری پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں وفاقی وزیر بن گئے۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں سردار ثناء اللہ زہری نے ایسے لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ دلوائے جو کامیاب ہوگئے لیکن نوازشریف کا مقصد بلوچستان میں حکومت بنانا نہیں بلکہ بلوچستان میں مسائل کو حل کرنا ہے۔ الیکشن سے کچھ دن پہلے ایک افسوسناک بم حملے میں سردار ثناء اللہ زہری کے برخوردار اور ایک بھائی جاں بحق ہوگئے۔ زہری صاحب نے قتل کی ایف آئی آر میں اپنی ہی پارٹی کے چنگیز مری کے والد خیر بخش مری اور اختر مینگل کو نامزد کردیا۔ ایک طرف تو یہ ایف ٓئی آر سردار ثناء اللہ زہری کی وزارت اعلیٰ کی راہ میں رکاوٹ بن گئی کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ اگر وہ وزیراعلیٰ بن گئے تو مری اور مینگل زیر عتاب آجائیں گے۔ دوسری طرف نواب اکبر بھٹی کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد ملزمان بھی ان کی حمائت کرنے لگے اور بگٹی صاحب کے خاندان نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلم لیگ (ن) ہمارے ملزمان کے ساتھ مل گئی ہے۔ یہ صورتحال نواز شریف کیلئے قابل قبول نہیں تھی۔ دوسری طرف پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی مشورہ دیا کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ نوازشریف بلوچستان کے پختون قوم پرستوں اور بلوچ قوم پرستوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں اسی لئے انہوں نے سردار ثناء اللہ زہری سے درخواست کی کہ وہ ذاتی مفاد اور جماعتی مفاد کو چھوڑ کر قومی مفاد میں ڈاکٹر مالک کو بطور وزیراعلیٰ قبول کر لیں۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت انتہائی خلوص دل سے اپنے سیاسی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دے رہی ہے۔ نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی نہیں بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی ایک بڑا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر پچھلے پانچ سال میں اعلیٰ عدلیہ نے تو اسٹینڈ لیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسٹینڈ نہیں لیا۔ یہ ڈاکٹر مالک تھے جو پچھلے پانچ سال میں کبھی کوئٹہ ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر ظلم و ناانصافی کیخلاف چیخ و پکار کرتے رہے۔ جب یہی ڈاکٹر مالک وزیراعلیٰ بنیں گے تو میڈیا کیلئے ڈاکٹر مالک کو ان کے پرانے مطالبات یاد دلانا بہت آسان ہوگا۔ اسی بلوچستان اسمبلی میں اختر مینگل بھی موجود ہونگے۔ وہ ڈاکٹر مالک کو بار بار یاد دلایا کریں گے کہ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا بھی دلوانی ہے۔ مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والوں کا سراغ بھی لگانا ہے ڈاکٹر مالک ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے۔ اگر وہ صوبے کے وزیراعلیٰ بن جاتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کس انداز میں کرتے ہیں؟ انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں میں وفاق اور پنجاب کے خلاف بے چینی میں کمی واقع ہوگی۔
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو آج نواز شریف بلوچستان کیلئے وہی کردار ادا کررہے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں نے بلوچستان کیلئے ادا کیا تھا۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ سے آشنائی رکھنے والے میر یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد اور عبدالصمد خان اچکزئی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میر یوسف عزیز مگسی ایک پڑھے لکھے نوجوان تھے جو بلوچستان میں انگریز سرکاری اور اس کے گماشتوں کے ظلم و ستم کیخلاف آواز اٹھانے کیلئے قلم کا سہارا لیتے تھے۔ 17 نومبر 1929ء کو لاہور کے ایک اخبار ہمدرد میں ”فریاد بلوچستان“ کے نام سے ان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کی اشاعت پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ہفت روزہ ہمدرد کے ایڈیٹر مولانا محمد علی جوہر اور روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان نے اس بانی بلوچ کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگسی نے رہائی کے بعد 1932ء میں جیکب آباد میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت عبدالصمد خان اچکزئی نے کی۔ مگسی، اچکزئی اور عبدالعزیز کرد نے بلوچستان میں سیاسی حقوق کیلئے تحریک شروع کی۔ مولانا ظفر علی خان نے 9 فروری 1934ء کو زمیندار میں لکھا۔
ملت کو ہو نوید کہ افغان کی طرح
بخش گئی بلوچ کو بھی زندگی نئی
آیا ہے انقلاب سواد قلات میں
یہ موج رنگ رنگ ادھر بھی چلی گئی
عبدالعزیز کرد پر ایوبیوں کو فخر
عبدالصمد کی ذات پہ نازاں اچکزئی
میر یوسف عزیز مگسی لاہور سے آزاد کے نام سے ایک اخبار میں بلوچستان کی جنگ لڑتے رہے۔ وہ 1935ء میں کوئٹہ کے زلزلے میں جاں بحق ہوگئے تو عبدالصمد اچکزئی نے ان کی یاد میں ”عزیز پریس“ قائم کیا۔ مگسی، عبدالعزیز کرد اور عبدالصمد اچکزئی کی تحریک کو میر غوث بخش بزنجو نے آگے بڑھایا۔ بعدازاں بزنجو اور اچکزئی نیشنل عوامی پارٹی میں اکھٹے ہوگئے لیکن ولی خان کے ساتھ اختلافات کے باعث عبدالصمد اچکزئی نیپ سے علیحدہ ہوگئے۔ اب ان کے برخوردار محمود خان اچکزئی، غوث بخش بزنجو حاصل بزنجو اور ڈکٹر مالک مل جل کر بلوچستان کو اس کے حقوق دلوانا چاہتے ہیں اور لاہور میں ان کا ایک ہمدرد نواز شریف کے نام سے موجودہے جو مولانا ظفر علی خان کی طرح زبانی کلامی حمایت پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا بلکہ وزارت اعلیٰ کے عہدے پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بٹھانا چاہتا ہے۔ یہ صرف ڈاکٹر مالک کا نہیں بلکہ ہم سب کا امتحان ہے۔ ہمیں مل کر ڈاکٹر مالک کو کامیاب کرانا ہے ان کی کامیابی پورے پاکستان کی کامیابی قرار پائے گی۔
تازہ ترین