• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے سکول میں اک مخصوص کاروباری برادری کے بچے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نارمل، بالکل عام بچوں جیسے بچے لیکن ان کے بڑوں کی اک اپنی ہی دنیا تھی جس کی کچھ کچھ سمجھ ہمیں سینئر کلاسز میں پہنچ کر ہوئی۔ وہ اپنی کاروباری جگہ کو دکان، شو روم یا آفس نہیں ”اڈہ“ کہتے تھے اور ”اڈے“ کے زریں ترین اصولوں میں سے ایک یہ تھا کہ باپ بیٹا یا بھائی بھائی کبھی ایک ہی وقت میں ”اکٹھے“ نہیں بیٹھتے تھے تاکہ وصولیاں کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ لٹکا کر زیادہ سے زیادہ عرصہ تک کے لئے ان کی رقموں سے استفادہ کیا جاسکے۔ مقصد بے ایمانی ہر گز نہیں کیونکہ لین دین میں کھرے لوگ تھے۔ معاملہ سٹرٹیجی کا تحفظ اور سٹرٹیجی یہ کہ جتنی دیر تک ممکن ہو پارٹی کی رقم دبا کر استعمال کرتے رہو۔ کمال یہ کہ ”اگرائی“ یعنی وصولیاں کرنے والوں کو بھی ساری واردات کی سمجھ تھی لیکن وہ ”پوز“ اس طرح کرتے جیسے بالکل بے خبر ہوں۔ یہ بہت ہی دلچسپ قسم کی ”بلیم گیم“ ہوتی۔ باپ ”اڈہ“ پر موجود ہوتا تو وصولی کرنے والے کے سامنے بیٹے کو خوب برا بھلا کہتا، جی بھر کے اس کی مذمت کرتا اور اس کے کان کھینچنے کا وعدہ کرتے ہوئے وصولی کے لئے آنے والے کو ”اگلی جمعرات“ تک کے لئے ٹال دیتا۔ اگلی جمعرات کو باپ کی جگہ بیٹا بیٹھا ہوتا جو انتہائی لجاجت اور حیرت سے پوچھتا۔
”اباجی نے ابھی تک پیمنٹ نہیں کی؟ حیرت ہے حالانکہ وہ تو خود مجھے کہہ رہے تھے کہ سارے کام چھوڑ کر سب سے پہلے تیرے ”چاچے“ کی پیمنٹ کرنی ہے۔ چاچا جی! اندر کی بات یہ ہے کہ ابا جی کی یادداشت بہت کمزور ہوگئی ہے۔ میں معافی چاہتاہوں اگلے ہفتے جمعرات کہ ہاتھ باندھ کر آپ کی امانت آپ کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔“ علی ہذالقیاس۔ غور فرمائیں کہ اس حکمت عملی کے تحت اگر 20 پارٹیوں کا 5,5 لاکھ چند ہفتوں کے لئے اضافی طور پر آپ کے استعمال میں رہے تو ایک کروڑ روپیہ بنتا ہے یہ 60ء کی دہائی میں بہت بڑی رقم تھی جو مفت میں بلاسود زیراستعمال رکھی جاتی اور اسے ”پیکیج“ کا حصہ ہی سمجھا جاتا۔
مجھے یہ بھولی بسری کاروباری سٹرٹیجی شریف برادران کی سیاسی سٹرٹیجی دیکھ کر یاد آ رہی ہے۔ ایک بھائی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی مختصر مختصر تاریخیں دیتا رہا۔ 6 مہینے میں، سال کے اندر، ڈیڑھ سال کے عرصہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کیا تو میرا نام بدل دینا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف بڑے بھائی نے بڑے ہی سبھاؤ کے ساتھ قوم کو بتا سمجھا دیا ہے کہ
”توقع نہ کریں کہ حکومت بدلتے ہی بجلی آ جائے گی“
” بجلی بحران حل ہونے میں وقت لگے گا“ (کتنا؟ کچھ پتہ نہیں)
”یہ توقع نہ کریں آج حکومت آئی تو کل بجلی آ جائے گی“
”عوام صبرسے کام لیں لوڈشیڈنگ ختم ہونے میں وقت لگے گا“
یعنی عوام کے حصہ میں اب بھی سوائے ”صبر“ کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ پوری قوم تازہ دم ہو کر پھر سے ٹرک کی بتی کے پیچھے ہوگی۔ کامیڈی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ ٹرک بھی پرانا ہے لیکن ڈرائیور ضرور تبدیل ہوگیا ہے کہ اب سٹیرنگ یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف کی جگہ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہوگا۔ قوم کو مبارک ہو کہ پہلے ”تیر“ بھگتا اب ”شیر“ کو بھگتے گی۔ ”تیر“ اور ”شیر“‘ میں صرف اتنا فرق ہے کہ ”تیر“ والے غیر سنجیدہ اور غیر سیانے قسم کے ”ہے جمالو“ ٹائپ لوگ ہوتے ہیں جبکہ ”شیر“ بہت دانا، سیانا اور کاروباری شیر ہے جسے ”بزنس“ کی بھر پور سمجھ ہے۔
الیکشن تک انہوں نے انتہائی کامیابی سے یہ تاثر راسخ کردیا کہ ن لیگ کے آتے ہی پورا ملک روشنیوں میں نہا جائے گا لیکن اب جب اقتدار چند دنوں کی مار ہے توانہوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ توقعات کی مینجمنٹ شروع کر دی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ توقعات جتنی زیادہ ہوں، تکلیف اور مایوسی بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات بونگی پیپلز پارٹی کو کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن کاروباری سیانے سب سمجھتے ہیں اس لئے سب سے پہلے انہوں نے توقعات کے غبارے سے آہستہ آستہ ہوا نکالنی شروع کردی ہے۔ چند ماہ کے اندر اندر اس رنگین غبارے کی جگہ اک چھیچھڑا سا دکھائی دے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ ماتم یونہی جاری رہے گا صرف اس کا موضوع بدل جائے گا، صفِ ماتم تبدیل ہوگی ”ماتم“ نہیں۔
سیاست بنیادی طور پر ہے ہی خواب فروشی (DREAM SELLING)جسے سلیس زبان میں بیان کریں تو اس کا مقصدہے لوگوں میں ”توقعات“ پیدا کردینا۔ بیوقوف سیاستدان توقعات پیدا کرکے تخت پر تو جا براجتے ہیں، ڈلیور کچھ بھی نہیں کرتے اور نہ ہی توقعات کو ہینڈل کرنے کی زحمت اٹھاتے ہیں۔ جو ان سے ذرا بہتر ہوتے ہیں وہ توقعات کی ہینڈلنگ کرکے عوام کو غچہ دیئے رکھتے ہیں، ٹر ک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں اور یہ باریک کام نواز شریف نے باقاعدہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شروع کردیا ہے یعنی حلف اٹھانے سے پہلے ”ہینڈزاپ“۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جو سچ مچ کے لیڈر ہوتے ہیں وہ اول تو فضول وعدے کرتے نہیں تو دوسری طرف جو جو کچھ کہتے ہیں، جیسی بھی توقعات ان سے وابستہ کرلی جاتی ہیں وہ تن من دھن لٹا کر ہر قیمت پر ان توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی دھیان میں رہے کہ EXPECTATION MANAGEMENT ایک باقاعدہ سائنس ہے جو ن لیگ پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہے۔ اس لئے ان کی ٹرم جتنی بھی ہوئی اس کا بیشتر حصہ اسی ”کارخیر“ میں گزرے گا۔ عوام کی قسمت میں وہی اندھیرے، وہی مہنگائی یا چند ٹوپی ڈرامے!”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“ لیکن کیا کریں بھائی! سوکھے ہوئے مردہ درختوں پر بہار کبھی نہیں آتی۔ مردار خور گدھ آ کر بیٹھ جائیں تو اور بات ہے۔ میں نے اوپر اندھیرے اور مہنگائی کے ساتھ چند ٹوپی ڈراموں کا ذکر کیا ہے تو اسے سمجھنے کے لئے اس تازہ خبر کی یہ دو سرخیاں ملاحظہ فرمائیں۔”میٹرو بسوں کے اے سی نہ چلنے پر ترک کمپنی نے چینی انجینئرز کو بلا لیا“”ابتدائی مراحل میں بسوں کو درست کرنے کے دوران چینی انجینئر نے 3 میٹرو بسوں کو آپس میں ٹکرا کر تباہ کردیا۔ ترکی کی کمپنی البیراک نے حادثے کو چھپانے کے لئے بسوں کو نشتر ڈپو میں کھڑا کردیا۔“عوام کا ایک ارب روپیہ ماہانہ کھانے والی میٹرو پر گرمی کے بعد برسات بھی آنی ہے۔ عوام کے لئے ہو نہ ہو سکریپ یعنی کباڑ کا کام کرنے والوں کے لئے یہ اک آئیڈیل پراجیکٹ ہوگا۔ آؤ ٹرک کی بتی کے پیچھے ننگے پاؤں جاگنگ شروع کریں!
تازہ ترین