• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھ سمیت ہر پاکستانی کیلئے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی جب حکومت نے پاکستان میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والے ملک کے عظیم فرزند محمد علی سدپارہ اور اُن کے غیر ملکی ساتھیوں کی تلاش کیلئے جاری ریسکیو آپریشن ختم کرتے ہوئے اِن کوہ پیمائوں کی موت کا باقاعدہ اعلان کیا۔

پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ رواں ماہ دو غیر ملکی کوہ پیمائوں آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے بوان پابلو موہر کے ہمراہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے ٹو سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوئے تھے جن کے لاپتہ ہونے کی خبر 5فروری کو منظر عام پر آئی جس کے اگلے روز اِن گمشدہ کوہ پیمائوں کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا جس میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا تاہم ریسکیو آپریشن میں 12 روز تک کامیابی حاصل نہ ہونے پر آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ ریسکیو آپریشن کے دوران ہر پاکستانی یہ دعا کرتا نظر آیا کہ علی سدپارہ کی تلاش کا یہ آپریشن کامیاب ہو۔ تاہم آپریشن میں کامیابی نہ ملنے پر علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اعلان کیا کہ ریسکیو آپریشن کو اُن کے والد کی لاش کی تلاش میں تبدیل کردیا جائے کیونکہ اب اُن کے والد کی زندگی کے کوئی امکانات نہیں۔

کے ٹو پہاڑ کی بلندی 8611میٹر (28244 فٹ) ہے جو دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ سے صرف 200میٹر کم ہے۔ کے ٹو کی بلندی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بلند ترین عمارت ’’برج الخلیفہ‘‘ جس کی بلندی 830میٹر ہے، اس جیسی 10عمارتیں کے ٹو میں سماسکتی ہیں۔ کے ٹو کو ’’قاتل چوٹی‘‘ اور مائونٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے جو ایڈونچر کے شوقین اور بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیمائوں کے دل میں مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے لیکن اِس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والا ہر 4میں سے ایک کوہ پیما موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش میںاب تک 86کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور کے ٹو پر اموات کی شرح 29فیصد ہے جبکہ مائونٹ ایورسٹ پر یہ شرح 4 فیصد ہے۔

کے ٹو کا بوٹل نیک (Bottle Neck) کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8 ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے جسے ’’ڈیتھ زون‘‘ یعنی موت کی گھاٹی بھی کہا جاتا ہے جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گرکر موت کو گلے لگانا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اتنی بلندی پر آکسیجن کی کمی اور انتہائی کم درجہ حرارت سے جسم اور دماغ پر سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں جو جسم اور دماغ کے مفلوج ہونے یا جسم کے کسی حصے میں ’’فراس بائٹ‘‘ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے بقول انسانی جسم سطح سمندر سے 2100میٹر بلندی تک رہنے کیلئے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی تیزی سے کمی اور منفی اثرات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوہ پیمائوں کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں زیادہ وقت نہ گزاریں، اِس لئے کوہ پیما تقریباً 16 سے 18 گھنٹے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ جو اپنے والد کی مہم جوئی میں اُن کے ہمراہ تھے، ڈیتھ زون میں آکسیجن کی کمی کے باعث مشن کو خیر باد کہہ کر واپس آگئے تھے۔ ساجد سدپارہ کے بقول اُنہیں یقین ہے کہ اُن کے والد نے کے ٹو چوٹی سر کرلی تھی مگر واپسی پر موسم کی خرابی کے باعث ڈیتھ زون میں کوئی حادثہ رونما ہوا جس کے باعث اُن کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

40 سالہ علی سدپارہ کوہ پیمائی کیلئے پاکستان آنے والے غیر ملکی کوہ پیمائوں کا فیورٹ تھا جو اُسے اپنے ساتھ مہم جوئی کیلئے لے جانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ علی سدپارہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا مگر غربت اُس کی ترقی میں کبھی حائل نہ ہوئی اور اُس نے ایک کامیاب پیشہ اپناکر نام بنایا۔ سدپارہ نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک پورٹر کی حیثیت سے کیا جو پاکستان میں کوہ پیمائی کیلئے آنے والے غیر ملکی کوہ پیمائوں کا سامان اٹھاکر اُن کے ہمراہ چلتا تھا اور اُس وقت سے علی کی یہ خواہش تھی کہ وہ بھی کے ٹو چوٹی سر کرے۔ اِس مقصد کیلئے علی سدپارہ نے غیر ملکی کوہ پیمائوں سے ملنے والے معاوضے اور ٹپ سے اسکردو کی مارکیٹ سے کوہ پیمائی کا استعمال شدہ سامان خریدا۔ اپنے کیریئر کے دوران علی سدپارہ نے دنیا کی 10 بلند ترین چوٹیاں سر کیں جس میں کئی بار نانگا پربت اور ایک بار کے ٹو سر کرنا بھی شامل تھا۔

علی سدپارہ کے چاہنے والے کوہ پیما دنیا بھر میں موجود ہیں جن کی مہم جوئی میں وہ ہمیشہ مددگار ثابت ہوا۔ علی کی موت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ اُنہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ شاید اُن کیلئے اِس میں بھی کچھ اطمینان ہو کہ علی سدپارہ کی آخری آرام گاہ اُسی پہاڑ پر ہو جس سے وہ پیار کرتا تھا اور اُسے سر کرنے کی کوشش میں اُس نے اپنی جان تک گنوادی۔ علی سدپارہ آج ہم میں نہیں، وہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے ٹو چوٹی سر کرنے میں شاید کامیاب نہ ہوا مگر اُس نے شہرت اور محبت کی وہ چوٹی ضرور عبور کرلی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ علی سدپارہ پر قوم کو فخر ہے اور آج ہر پاکستانی اُسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے الوداع کہہ رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین