• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس روز طاہر القادری کو سپریم کورٹ سے کورا جواب ملا تھا مجھے بہت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے فون کر کے کہاکہ آج کے بعد ہم پاکستان میں نہ تو کوئی کاروبار کریں گے اور نہ ہی کوئی جائیداد خریدیں گے۔ وجہ پوچھی تو جواب آیا کو اگر ہماری جائیداد یا کاروبار کا کوئی تنازع پاکستان کی کسی عدالت میں گیا تو عدالت ہمیں غیرملکی کہہ کر فارغ کر دے گی۔
سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا حالانکہ اسی عدلیہ کی بحالی کے لئے شاہراہ دستور پر میرا خون گرا تھا اور بدقسمتی سے خون گرانے والے آج میاں صاحب کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔عدالت کی بات بعد میں کریں گے پہلے فخرو بھائی کے ”فاختائی“ الیکشن کی بات کر لیں۔ پنجابی بولنے والے تمام لوگ اس ”فاختائی“ کا مطلب بخوبی سمجھتے ہیں۔الیکشن کے آغاز میں جب بہت سے ٹیکس چوروں، جعلی ڈگری ہولڈروں اور قرضہ خوروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے لگے تو قوم بڑی خوش ہوئی پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ بڑھاپے میں ”عزت“ کمانے والا بوڑھا الیکشن کمشنر آئین کی دفعات 62 اور 63 بھول گیا خیر پھر سب کو چھٹی مل گئی اور قوم کے مقدر میں وہی ستر خاندانوں کے لوگ لکھ دیئے گئے جو پچھلے 65 برسوں سے حکمرانی کررہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے تین جماعتوں کو نام نہاد دہشت گردوں نے انتخابی مہم نہ چلانے دی باقی جلسے کرتے رہے، الیکشن کا دن بڑا عجیب تھا فخرو بھائی نے کراچی میں ووٹ ڈالا، یہیں انہوں نے اپنی بے بسی کا اقرار کیا۔ چیف جسٹس نے اپنے معروف صاحبزادے کے ہمراہ کوئٹہ میں ووٹ ڈالا۔ جنرل کیانی نے یہ کام راولپنڈی میں کیا۔ وہ اپنے صاحبزادے سروش کو ساتھ نہ لے جا سکے۔
الیکشن کمیشن ، الیکشن اخراجات کے حوالے سے بھی عملدرآمد نہ کروا سکا۔ اس نے ایک ایم این اے کیلئے پندرہ لاکھ اورایک ایم پی اے کیلئے ساڑھے سات لاکھ حد مقرر کی تھی۔ کس کس نے حدود تجاویز کیں اس کی کوئی خبر نہیں اس پر تو حدود آڈریننس بنانے والے بھی خاموش ہیں۔ الیکشن کے دن دھاندلی کی شدت کو دیکھ کر جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل، جمعیت علمائے اسلام(ف)، مہاجر قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے پاکستان نے کراچی اور حیدرآباد کی حد تک الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ باقی کسر شام کو پوری ہو گئی۔ رہی سہی کسر آدھی رات کے بعد ”پیغام فی سبیل اللہ“ کے تحت پوری کر دی گئی۔ آدھی رات کی اندھیر نگری میں چلنے والی آندھی نے بڑے بڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ کہیں دو سیکنڈ میں چار ووٹ پڑے اور کہیں فی سکینڈ رفتار اس سے بھی تجاوز کر گئی۔ آدھی رات کا ایک قصہ سن لیجئے۔ قومی اسمبلی کے حلقے 154 میں نصف شب تک جہانگیر ترین کے ووٹ 72 ہزار سے زائد تھے، مخالف آزاد امیدوار کے ووٹ قریباً 41 ہزار تھے۔ آدھی رات کے بعد آزاد امیدوار کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہوا اورانہیں 44515 ووٹ مزید مل گئے جب کہ جہانگیر ترین کے صرف 2600 ووٹ بڑھ سکے۔ اس مرتبہ الیکشن کے باغات کے گالڑ پٹواری تھے لہٰذا دولے شاہ کے چوہے اپنا کام دکھا گئے۔
الیکشن ہو گئے اور میاں صاحب بھاری مینڈیٹ لے گئے۔ بلوچستان میں جمہوری وطن پارٹی نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بی این پی مینگل نتائج تسلیم کرنے سے انکاری ہے، سندھ میں دس جماعتی اتحاد کا طرز عمل بھی یہی ہے ایاز لطیف پلیجو دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔ رونا رونے والوں میں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ن کے چند امیدوار اور جے یو آئی ف بھی شامل ہے۔ تحریک انصاف نے تو باقاعدہ دھرنے دیئے، آنے والے دنوں میں وہ تحریک بھی چلا سکتے ہیں کیونکہ عمران خان نے موجودہ الیکشن کو تاریخ کا بدترین دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیاہے۔ انہوں نے فی الحا ل چیف جسٹس آف پاکستان کو عاجزانہ انداز میں درخواست کی ہے کہ وہ دھاندلی کاجائزہ لیں کیونکہ ریٹرننگ آفیسرز کا کردار کافی ”نمایاں“ نظر آرہا ہے۔ مزید تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ کونسی پارٹی نے دو سابق ججوں اور ایک سابق آئی جی پولیس پر مشتمل الیکشن سیل بنا رکھا تھا۔ پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر کی کس سے رشتہ داریاں ہیں اور لاہور میں بلڈنگیں گرانے کا انچارج کون تھا مزید تسلی کے لئے یوسف احد ملک سے رابطہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا پلازہ بھی گرایا گیا تھا۔
فخرو بھائی کے کرائے گئے الیکشن پرعشقیہ داستانیں بھی ماتم کر رہی ہیں کہ جنرل الیکشن میں سسی، ہیر اورماروی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جب عورتوں کی سیٹوں کی بندر بانٹ ہوئی ہے تو شاید ایک آدھ کو حصہ مل گیا ہے۔ البتہ تحریک انصاف نے عائلہ ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا، وہ اسمبلی میں نہیں پہنچ سکیں۔ اب وہ ایک ضمنی الیکشن کے راستے سے اسمبلی میں پہنچنے کی کوشش کریں گی۔ ان کی بہن سمیرا ملک نے جنرل الیکشن میں تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے تیسری کامیابی کے بعد انہوں نے اپنے مخالف عمر اسلم کو پیغام بھی بھیج دیا ہے کہ وہ کوئی اورکام کریں، سیاست ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
پچھلے الیکشن میں عمر اسلم چند سو ووٹوں سے ہارے تھے مگر اس مرتبہ فرق بہت زیادہ ہے۔ ویسے تومیاں صاحب کی ٹیم میں بہت سے کھلاڑی پرویز مشرف کے ہمنوا رہ چکے ہیں۔ آخری دو دانے ظفراللہ جمالی اور ارباب غلام رحیم بھی آملے ہیں میری درخواست ہے کہ میاں صاحب، احسن اقبال کے کزن وصی ظفر کو بھی لے لیں۔ میاں صاحب نے اپنے تازہ فرمودات میں پنجاب کے ووٹرز کو میچور کہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے پشاور سے نومنتخب ایم پی اے شوکت یوسف زئی نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ سیاسی شعور خیبرپختونخوا کے لوگوں میں ہے جنہوں نے 1993ء میں پیپلز پارٹی کووو ٹ دیا۔ 1997ء میں ن لیگ کو مینڈیٹ دیا، 2002ء میں مولویوں کو آزمایا اور 2008ء میں اے این پی کو ووٹ دیا۔ اب 2013ء میں پی ٹی آئی کوووٹ دیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام ہر الیکشن میں سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہیں شاید باقی صوبوں کے لوگ ایسا نہیں کر پاتے۔
ملک کے بہت سے حصوں میں الیکشن دھندلی ہضم نہیں ہو رہی ، اسحاق خاکوانی الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو کر اپنی سچائی ثابت کر چکے ہیں مگر ان کی سچائی کو منظر عام پر نہیں آنے دیا جا رہا، ایک زمانے میں انگوٹھا چھاپ سیاستدان ہوتے تھے، اب انگوٹھا چھاپ الیکشن ہو گیا ہے، انگوٹھا چیک کرالیا جائے تو شفافیت سامنے آجائے گی ورنہ یہ الیکشن متنازع ہی رہے گا اور لبوں پر سرور ارمان کا یہ شعر ضرور آئے گا کہ
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی
تازہ ترین