• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
تخابات جمہوریت کا حصہ ہیں، جمہوریت میں عوام کے ووٹوں کا احترام کیا جاتا ہے، عوام اپنے ووٹ کی پرچی سے مستقبل کی قیادت کو چنتے ہیں،وطن عزیز پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور آنے والے سینیٹ پاکستان کے انتخابات زیر بحث ہیں، الیکشن ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے ایک جماعت نے جیتنا اور باقی نے ہارنا ہوتا ہے، مہذب معاشرے میں تو ہار جیت کو خندہ پیشانی سے مان لیا جاتا ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں چونکہ بھوک افلاس ،پریشانیوں اور معاشرے میں عدم برداشت کے فقدان، سیاست میں نظریاتی اختلافات کو ذاتی اختلافات میں بدلنے کی روایت سے ہم ایک ایسے کنارے پہنچ آئے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ حالیہ انتخابات کی دھند میں اندھا دھند گم ہو کر رہ گیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں انصاف صرف کرنا ہی نہیں بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہئے ، صرف الیکشن کرانا مقصود نہیں بلکہ الیکشن ہوتے ہوئے نظر آنے چاہئے۔سیاست میں اس قدر آگے نہیں بڑھنا چاہئے کہ لوگوں کی جانیں چلی جائیں، کوئی اخلاق، رواداری بھی کسی چیز کا نام ہے، عموماً ضمنی الیکشن میں اخلاقی طور پر وہی کامیاب ہوتا ہے جس کی سیٹ ہوتی ہے اسے کسی بھی لحاظ سے زندگی و موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اگر دیکھا جائے تو ڈسکہ کے الیکشن میں بہت کچھ بے نقاب ہوگیا ہے۔جس طرح موٹرسائیکل سواروں کے گروہ اچانک برآمد ہوتے دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کرتے اور غائب ہوجاتے،پولیس، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟ یا دیکھتے ہی رہ گئے؟ ماضی میں تھوڑی بہت دھاندلی، ہر امیدوار کے اپنے حلقہ اثر میں اثرورسوخ استعمال کرنے کی شکایات ملتی رہتی تھی، لیکن پولنگ والے دن الیکشن کمیشن کے 23پولنگ اسٹیشن کے عملہ کاتھیلوں کے ساتھ غائب ہونا اور صبح 6.00 بجے کے قریب رپورٹ کرنا اور اس دوران آئی جی، چیف سیکرٹری سمیت زمہ دار افسران کا الیکشن کمیشن سے رابطہ نہ کرنا ان کے فون بند ملنا نہ صرف بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے بلکہ پورا الیکشن ہی متنازع بنا دیتا ہے۔ تحریک انصاف جو صاف شفاف الیکشن کے نام پر متعدد دھرنوں احتجاجی مظاہروں کے بل بوتے پر حکومت میں آئی تھی صرف ایک ضمنی الیکشن بھی ذمہ داری سے نہ کروا سکی۔ ہمیں اس الیکشن کی خامیاں تلاش کرنا ہوں گی۔ ملک میں مجموعی طور پر عدم برداشت، سیاسی انتقام اور نفرت کی سیاست عروج پر ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت جب انتقام اور نفرت کی سیاست کرتی ہیں توتعمیر و ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ نئے آئیڈیاز، مستقبل کی پلاننگ تھم جاتی ہے، حکومت ایک انتقام کے خاتمے کے بعد دوسرے کا سوچتی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری لاء اینڈ آرڈرز کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے اور یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج سرشام مختلف پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاک میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر نہ صرف اعلیٰ قیادت سے شاباشی وصول کرتے ہیں بلکہ مزید بہتر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے فالوورر چور، ڈاکو، منی لانڈرنگ، قاتل وغیرہ پر گرم کرائوڈ کرتے ہیں لیکن معاشرہ تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سیاست عبادت سمجھ کر کی جاتی تھی اعلیٰ اخلاقی قدریں ہوتی تھیں،اب انتقام اور عدم برداشت کا فقدان ہے، مجموعی طور پر ہمیں مل کر اس لعنت سے نکلنا ہوگا۔
تازہ ترین