• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب برصغیر میں تحریکِ آزادی زور پکڑ رہی تھی تو انگریز ہر میدان میں اس تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ریاستی جبر اور تشدد کے ساتھ ساتھ عقلی اور علمی محاذ پر بھی جنگ جاری تھی۔ انگریز دانشور اور پروپیگنڈہ کے ماہرین برصغیر کی آزادی کے خلاف ایک بڑی وزنی دلیل دیا کرتے تھے کہ اگر انگریز یہاں سے چلے گئے تو ہندوستان کے مقامی لوگ اتنے بڑے ملک کو نہیں چلا سکیں گے اور ہندوستان میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے لے گا، اس لئے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت رہنا ضروری ہے۔ تحریکِ آزادی کے ہندو اور مسلمان رہنما اس دلیل کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن انگریزوں کی اس دلیل کو آسانی سے رد کرنا بھی ممکن نہیں تھا لہٰذا علمی سطح پر اس دلیل کے حوالے سے بحث ایک لمبے عرصے تک چلتی رہی۔ ہندوستان میں قوم پرستی کی تحریک زور پکڑتی گئی تو انگریزوں کیلئے ہندوستان پر حکومت کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد انگریز اتنے کمزور ہو گئے کہ انہیں ہندوستان سے جانا پڑا۔ تحریک ِ آزادی کے آخری چند سالوں میں ہندوستان کی قوم پرستی کی تحریک دوقومی نظرےئے کی وجہ سے دوحصوں میں تقسیم ہو گئی اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان وجود میں آ گیا۔ ہندوستان اور پاکستان آغاز ہی سے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم راستوں پر چل دےئے جو راستے دونوں کو مختلف بلکہ متضاد منزلوں کی طرف لے گئے۔ مادی حالات کے فرق سے ہٹ کر اگر جائزہ لیا جائے تو دونوں ملکوں یا پھر یوں کہنا چاہئے کہ دونوں ملکوں کی اشرافیہ کی سوچ اور طرزِ عمل میں ایک واضح فرق تھا۔جہاں ہندوستان کی اشرافیہ میں کانگریس کی کوششوں اور اس کے قائدین کی عشروں پر محیط عقلی اور سیاسی جدوجہد کے باعث قوم پرستی اور وطن پرستی کا ایک مضبوط اور توانا جذبہ موجود تھا وہیں پاکستان کی اشرافیہ روز اول سے ہی ان جذبوں کے معاملے میں کمزور تھی، اخلاقی بحران اس کے علاوہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اشرافیہ نے ابتدا ہی دوسروں پر انحصار کرنے اور خود کو دوسری طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے کی۔ جس طرح کسی شخص کو اگر دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے اور اپنی عزتِ نفس دوسروں کے ہاتھوں گروی رکھنے کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کی حالت کبھی نہیں سنور سکتی اور وہ اخلاقی پستی میں گرتا ہی چلا جاتا ہے ، ٹھیک اسی طرح اگر یہ لت کسی ملک کے حکمران طبقات یعنی اشرافیہ کو لگ جائے تو اس ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں کی حالت بھی کبھی نہیں سنور سکتی اور اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ مادی لحاظ سے تنزلی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ یہی ہوا اور صرف ساٹھ پینسٹھ سالوں میں پاکستان کی حالت اپنی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ دیکھنے کا موقع ملا جس میں دنیا کے پسندیدہ ممالک کی ایک فہرست تیار کی گئی تھی، اس کے مطابق جرمنی دنیا کا پسندیدہ ترین ملک ہے جبکہ پسندیدہ ممالک کی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر کیلئے(یعنی نا پسندیدہ ترین ملک کیلئے) پاکستان او ر شمالی کوریا میں مقابلہ ہے۔ آزادی کے ان ساٹھ پینسٹھ سالوں میں البتہ ہندوستان بتدریج آگے بڑھتا گیا اور آج ہندوستان کا نام مستقبل کی عالمی قوتوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔میری دانست میں ناکامی ہمیشہ کیلئے ہمارا مقدر نہیں ہے۔ اگر ہم حالات اور خصوصاً مسائل کا درست تجزیہ کر لیں اور ہمارے اندر خود کو بدلنے کی خواہش اور جذبہ پیدا ہو جائے تو ہم دنیا کے نا پسندیدہ ترین ملک کے درجے سے آہستہ آہستہ اوپر اٹھنا شروع کر سکتے ہیں اور ایک دن ہمارا مقابلہ شمالی کوریا جیسے ملکوں کے بجائے جرمنی جیسے ملکوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
اگر ہم 2013ء کے پاکستان کا جائزہ لیں ، خصوصی طور پرمتنازع انتخابات کے نتائج کے حوالے سے،تو ہمیں اس میں ایک ”نئے پاکستان“ کے بجائے نوّے کی دہائی والے ”پرانے پاکستان“ کی طرف لوٹنے کا جذبہ نظر آتا ہے۔ نوّے کی دہائی والا ”پرانا پاکستان“جو لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے تو آج سے بہت بہتر تھا لیکن جس میں ملک بیرونی اور اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواتھا، بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی نا قابلِ برداشت حد تک بڑھی ہوئی تھی، سیاست میں اخلاقیات کا تصور مجروح تھا۔ ریاستی اداروں خصوصاً پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور اس میں بھی اعلیٰ عدالتیں بُری طرح سیاست زدہ تھیں، کرپشن اور بدانتظامی کی بدترین مثالیں قائم کی جا رہی تھیں فوج، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کی فضا قائم تھی اور”پُرانے پاکستان“ میں اس طرح کے مسائل کی ایک لمبی فہرست تھی۔کیا ”پُرانا پاکستان“ ہمار ے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ ہماری اشرافیہ اور ہمارے عوام کس خام خیالی میں مبتلا ہیں!!
آج اسّی نوّے سال گزر جانے کے بعد انگریزوں کی وہ دلیل میرے ذہن پر قبضہ کر کے بیٹھی ہوئی ہے ۔ ہندوستان کی حد تک تو انگریز کی دلیل مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی ہے ، جو اپنے تمام تر مسائل کے باوجود بتدریج اپنے حالات میں بہتری لاتے ہوئے آج انگریزوں کے سامنے ایک باعزت اور طاقتور ملک کے طور پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھڑا ہے۔ عزت ِ نفس اور ”Incredible India“ کے احساسات سے سرشارایک عام ہندوستانی بڑے فخر سے انگریز مفکرین ،جو کہا کرتے تھے کہ ہندوستان سے اگر انگریز چلے گئے تو ہندوستان خود کو نہیں چلا پائے گا، کا منہ چڑا رہا ہے۔لیکن متحدہ ہندوستان کا وہ حصہ جو بعد میں پاکستان بنا اس کی حد تک انگریز کی دلیل کتنی درست ثابت ہوئی ہے!! ویسے تو ہر شخص کے اختیار میں ہے کہ وہ سراب سایوں کا پیچھا کرتا رہے اور سمجھتا رہے کہ پاکستان دنیا کی ایک بڑی قوت ہے، مسلم امہ کا لیڈراور اسلام کا قلعہ ہے، مشرق سے ابھرتا ہوا ایک سورج ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن میں خود کو حقیقت کی دنیا میں آباد رکھنا چاہتا ہوں اور ان میں سے کسی بھی بات کو درست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں۔
پاکستان کو بدلنے کیلئے ہمیں اپنے ماضی اور حال کو تاریک تسلیم کرنا ہو گا۔ اپنے روشن مستقبل کا تعین ہمیں اس انداز سے کرنا ہوگا کہ ”نیا پاکستان آج کے پاکستان سے مکمل طور پر مختلف ہو گا“۔ آج کا پاکستان بالکل قابلِ فخر نہیں ہے اور ہم نے نئے پاکستان کو ایسا بنانا ہے جس پر ہم فخر کر سکیں لیکن یہ ہو گا کیسے؟
ایک حقیقت ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ کسی بھی ملک کی باگ ڈور اس کی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، عوام کے ہاتھوں میں نہیں۔ عوام چاہیں بھی تو ایک معمولی حد سے زیادہ تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ اگر کسی ملک کی اشرافیہ عمومی اور مجموعی طور پر محبِ وطن ہو، اخلاقیات کے اصولوں پر کاربند ہو، تخلیقی صلاحیتیں رکھتی ہو اورعوام کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہو، مرعوبیت کے مرض سے محفوظ ہو، تو وہ ملک کو اگر ایک عالمی قوت نہ بھی بنا سکے تو ایک مناسب حد تک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ضرور بنا دیتی ہے لیکن اگر کسی ملک کی اشرافیہ پاکستان کی اشرافیہ جیسی ہو یعنی حب الوطنی کا کوئی خاص جذبہ نہ ہو، اخلاقیات کے تو ہجے بھی پتہ نہ ہو، تخلیقی صلاحیتیں اتنی ہوں کہ اکیسوں صدی میں ایک سوئی تک باہر سے آتی ہو، فلمیں ، ڈرامے، ناول ، افسانے تک دوسرے ملکوں سے برآمد کئے جاتے ہوں حتیٰ کہ صدر ، وزیراعظم اور وزراء تک باہر سے منگوائے جاتے ہوں اور مرعوبیت کے تعویز کا پانی دن رات پیا جاتا ہو، تو پھر وہ ملک جس کی قسمت میں اس طرح کی اشرافیہ آئے گی، وہ صرف عالمی سطح کی ایک ہی فہرست میں پہلے نمبر پر آ سکتا ہے، ناپسندیدہ ملکوں کی فہرست میں۔
اس صورتحال کا تدارک اس طرح ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام اس کی اشرافیہ اور اس کی پینسٹھ سالہ کارکردگی کو مسترد کر دیں۔ ان بدترین حالات سے نکلنے کیلئے پاکستان کو ”تبدیلی“ اور ”جمود“ کے درمیان ایک جنگ کی کیفیت سے گزرنا پڑے گا۔ ہمیں جمود زدہ سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں، انتظامی افسروں، سرمایہ داروں، دانشوروں ، پروفیسروں، انجینئروں، سائنسدانوں وغیرہ کو علمی اور عملی میدانوں میں آڑے ہاتھوں لینا ہو گا۔ ہمیں ان سے ان کی پینسٹھ سالہ کارکردگی کے بارے میں سوال کرنے ہوں گے اوربا لآخر ان سب کو آئینہ دکھاتے ہوئے مسترد کر کے ان سارے شعبوں میں ”تبدیلی“ کے علمبردار لوگوں جو حب الوطنی، اخلاقیات، تخلیقی صلاحیتوں ،قوم پسندی اور اس طرح کے دیگر جذبات سے مالا مال ہوں، کو آگے لانا ہو گا۔ اچھی خبر ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کا یہ سفر شروع ہو چکا ہے لیکن جب تک آپ اس سفر میں ہم سفر نہیں بنیں گے، منزل دور ہی رہے گی۔
تازہ ترین