• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تجزیہ ہے، تبصرہ ہے، اندازہ یا کوئی فلسفہ بگھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ممکن ہے کسی حواری درباری نے کوئی شوشہ چھوڑا ہو جو دل میں کہیں اٹک گیا اور امکان اس بات کا بھی ہے کہ عنقریب ملنے والے اقتدار کی ترنگ میں بات برائے بات کر گئے ہوں جس کے پیچھے کسی سنجیدہ سوچ کا کوئی وجود ہی نہ ہو جو بھی ہو تیسری بار وزیراعظم بننے والے شخص کے منہ سے ایسی بات جچتی نہیں کہ الیکشن میں پنجاب نے ”بلوغت“ کا ثبوت دیا جس کا مطلب ہے باقی صوبے ”نابالغ“ ہیں۔ خیبرپختونخوا کو جذباتی، سندھ کو روایتی اور بلوچستان کو ”قبائلی“ کے خانوں میں تقسیم کرکے نواز شریف نے کیا کیا؟ خیبرپختونخوا والے تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ وہ غیرت مند آزاد منش لوگ ہیں جو کسی مخصوص ٹولے کواپنے سر اور اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیتے۔ دوسری طرف سندھی بھائی بھی جواباً یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جنہیں لاشوں کی گنتی بھول گئی وہ اسے یاد رکھیں گے اور ”روایت“ زندہ رہے گی۔ ایک سندھی دوست نے جو کہا اس کا صرف ایک بے ضرر سا حصہ بیان کر رہا ہوں کہ ”سائیں! تم نہیں جانتے کہ سندھ کی ماں نصرت بھٹو بھی شہید ہے کیونکہ لاہور قذافی سٹیڈیم میں جنرل ضیاء الحق کی لاٹھیوں کا ہی اثر تھا کہ پہلے ان کی یادداشت گئی، پھر زندگی اور ہماری یہ ماں ایک سے زیادہ بار شہید کی گئی۔“ ادھر بلوچستان سے بھی کوئی کہہ سکتاہے کہ اگر ہم ”ایٹمی پاکستان“کے اندر 2012 میں بھی ”قبائلی“ ہیں عہدحاضر سے ہم آہنگ نہیں اور وقت سے بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں تو یہ بھی تم لوگو ں کا ہی کارنامہ اور کیا د ھرا بلکہ سازش ہے۔
سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف کو یہ سب کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ حضور بجلی کا بحران ختم کریں، ڈرون کا شکار کھیلیں کہ اس عظیم شکار کیلئے تو خیبرپختونخوا میں عمران خان بھی اپنے ”نابالغ“ صوبے سمیت آپ کے ساتھ ہوگا۔ خواہش میری یہ ہے کہ ڈرون کا شکار کرنے کے بعد اس کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانا نہ بھولیں جیسے پرانے شکاری اپنے شکار کے ساتھ تصویر بنوایا کرتے تھے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ تصویر ایسی ہو کہ درمیان میں ڈرون مرا پڑا ہو، اس کے دائیں ہاتھ میاں نواز شریف اور بائیں ہاتھ عمران خان فاتحانہ انداز میں مسکرا رہے ہوں۔ ہوسکے تو یہ تصویر پانچ ہزار روپے کے اس کرنسی نوٹ پر چھاپی جائے جو عملاً ایک ہزار روپے کا رہ گیاہے …واہ جسے دیکھو قوم کو بیوقوف بنانے پرتلا بیٹھا ہے۔ بائی دی وے جب برادرم فرید پراچہ ”ڈرون“ کو ”ڈارون“ کہتے ہیں توسونے پر سہاگہ ہی نہیں ہوتا کریلا بھی نیم پر چڑھ جاتاہے۔
بجلی کا بحران ختم کرکے ”ڈرون“ کا شکار کرنے کے بعد میاں نواز شریف کو چاہئے کہ طلال بگٹی کے ساتھ مل کر آرٹیکل چھ (6) پربھی چھکا لگائیں کہ آئین شکن مرد آہن تو رضاکارانہ طور پر واپس آ کر چک شہزاد اسلام آباد میں بیٹھا آرٹیکل سکس کے سینے پر مونگ دل رہا ہے اور ان بدترین حالات میں بھی دلیر اتنا کہ ملک چھوڑنے سے بھی انکاری ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ چک شہزاد کی یہی چنگاری دہکتا ہوا الاؤ بن جائے۔ سچ یہ ہے کہ جتنی جی داری کے ساتھ جتنے دشمنوں کامقابلہ مشرف اور اس کے مٹھی بھر ساتھیوں نے کیا اور کر رہے ہیں، اس پر داد نہ دینا کم ظرفی ہوگی۔
ہاں تو ہم اب تک کون کون سے کارنامے سرانجام دے چکے ہیں؟ لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہوچکا، ڈرون بھی ایٹمی وزیراعظم سے ڈر کر بھاگ چکے، آرٹیکل چھ کا بھی ڈول ڈالا اور بول بالا ہوچکا۔ باقی رہ گئی دہشت گردی تو اس میں کیاشبہ ہے کہ What is a bomb blast between friends.
یہاں بھی آپ اور عمران خان متفق و متحد ہیں تو امن کا مبارک نام لے کر شروع کریں مذاکرات کہ آپ سے پہلے والے تو چکڑ چھولے، بھٹورے اور چنا جورگرم یا چپس ہی بیچ رہے تھے جنہیں نہ کبھی مذاکرات کا خیال آیا نہ سلیقہ۔ وہ توشوقیہ اپنے بچے مرواتے کٹواتے رہے تواب تو سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے اور معجزہ دیکھیں کہ دوسری بڑی پارٹی بھی ڈرون سے لے کر دہشت گردی کا خاتمہ بذریعہ مذاکرات میںآ پ کے شانہ بشانہ ہے۔ تو چلیں شاباش فٹافٹ دو،چار، چھ مہینے، سال میں دہشت گردی کا دیو واپس بوتل میں ڈالیں اور عبدالحمید عدم صاحب کو یادکریں جنہوں نے کیا خوب کہا تھا … ”نشہ شراب میں ہوتا توناچتی بوتل“ ہاں جی تو ہم اب تک اپنے کون کون سے اہداف حاصل کرچکے؟
ڈرون مکا چکے اور بھگا بھی چکے
پرویز مشرف پر مقدمہ چلا چکے
مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کاخاتمہ بھی کرچکے
اب رہ گئیں بھوک، بیروزگاری، مہنگائی سے بلکتے ہوئے ملک میں بلٹ ٹرینیں اور میٹروبسیں تو یہاں سوچنا پڑے گا کہ پہلے کیا کرنا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بلٹ ٹرینوں اور میٹروبسوں کی ”تعیشات“ میں پڑنے سے پہلے ”بنیادی ضروریات“ کا کچھ بندوبست ہو جائے جس کے لئے اقتصادی استحکام و ترقی بہت ضروری ہے جو حکومت کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا بلکہ ہاتھ کیا ہلانا جنبش ابرو ہی کافی ہوگی کہ یہی تو ان کی سپیشلائزیشن ہے۔ میاں صاحب کی بزنس سینس تو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر سو اگر وہ تسلسل کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد اب وہ اقتصادی دھماکے کریں گے تو چشم ما روشن دل ماشاد… اقتصادی بدحالی کا منحوس سیاہ چاغی بھی سفیدکردیں تو اگلی ٹرم بھی پکی سمجھیں لیکن قرضہ اٹھا کر اور سرکاری زمینیں بیچ کر نہیں اور ایسے معاشی مسخروں سے بچیں جو بجلی کے بلوں میں امیر غریب کی احمقانہ تجویزیں دے رہے ہیں کیونکہ یہ کام پہلے ہی ملفوف طریقہ سے جاری ہے کہ جیسے جیسے یونٹس بڑھتے ہیں، فی یونٹ بل بھی بڑھتا ہے اور اس طرح کے مشورے دینے والے بل بتوڑوں کے لئے عرض ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک آدمی کھجوروں کی تین ڈھیریاں بنائے بیچ رہا ہے۔ فرمایا… ”یہ کیا؟“ جواب دیا”ایک ڈھیری درجہ اول، دوسری دوم، تیسری درجہ سوم“ امیر المومنین نے تینوں ڈھیریاں ڈھا کر انہیں آپس میں ملاتے ہوئے درشت لہجے میں فرمایا… ”تو میری موجودگی میں مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کر رہا ہے“ سبحان اللہ میرے آقا نے خوب کہا تھا کہ مومن کی فراست سے ڈرو لیکن یہاں تو ایک صوبہ بالغ، دوسرا جذباتی، تیسراروایتی اور چوتھا قبائلی ہے۔ متحد کرنے والے ہی منتشر کرنے پرتلے ہیں حالانکہ میاں صاحب کا مقصد یہ نہیں ہوگا سو نتیجہ یہ نکلا کہ غیرضروری باتیں کرنے کی بجائے خاموشی سے کرنے والے کام کریں۔عوام بیتابی سے مثبت نتائج کے منتظر ہیں۔میڈیا بھی کسی نئے موضوع کی تلاش میں ہے اور قصے کہانیوں کا کوٹہ ختم ہوچکا۔
تازہ ترین