• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ابرار میر۔ ۔۔لندن
پاکستان نیا ہو یا پرانا ہم کسی کو بھی برا نہیں کہہ سکتے کیوں پاکستان تو پھر پاکستان ہے البتہ پرانے پاکستان اور نئے پاکستان کے معاشی، سیاسی، اخلاق، معاشرتی تغیرات کا موازنہ ضرور کرسکتے ہیں تاکہ آج کی نسل کو حقائق کا پتہ چلے۔بہت عرصہ سے لکھ کر آواز اٹھا رہا ہوں کہ ایک نسل نے اسلام کے نام پر دھوکہ کھایا اور پھر ایک نسل روشن خیالی کی بھینٹ چڑ گئی اور ہم غنودگی میں پڑتے گئے۔ یہ چربہ انصاف کے نام پر ہمارے نئے اور پرانے پاکستان کو کھوکھلا کر رہا اور اس کے حواریوں نے ڈس انفارمیشن کا ایسا مدحوش جال بچھایا ہے کہ نوجوان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جھوٹ اور نفرت پر سچ اور اتفاق کی سفیدی کردی کہ نئی نسل میں ادب و آداب کا فرق ختم ہوگیا۔ یہ چربہ طالبان سوچ بھی رکھتا ہے اور مادر پدر آزاد کی پالیسی بھی اپنائے ہوئے ہے لیکن اب بنیادی زمہ داری پرانے پاکستان والوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر اور دھرتی ماں کو متوقع عذاب سے محفوظ رکھیں۔ جب ہم پرانے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس میں گلی کے تھڑے پر بیٹھے ہوئے پا بشیر سے لے کر ہر عالم فاضل، دانشور، شاعر، وکلا، پروفیسر، نقاد، صحافی، سیاستدان، سمندر پار پردیسی پاکستانی اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے معاشرتی استاد شامل ہے۔ آج اگر آپ ماضی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو معاشرے میں عزت اور احترام کا پہلو جھلکتا تھا اور اداروں پہ کچھ نہ کچھ اعتماد بھی تھا لیکن اب انصاف کی آڑ میں ملکی اداروں کو داؤ پر لگایا جارہا ہے، بنیادی اور روز مرہ کی اجناس کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا گیا، میڈیا کی زبان بندی بلکہ اپاہج کردیا گیا، اداروں کو اپنے اقتدار کی حوس میں متنازع کیا گیا، دہشت گردوں کو شہید کہا گیا، سیاسی مخالفین کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور صبح شام چور ڈاکو کی رٹ لگائی گئی مگر عملا عوام کیلئے کچھ نہ کیا گیا بلکہ سہولتوں سے محروم کیا جارہا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم مستقبل میں یہ کر دیں گے تو وہ کردیں گے۔ تین سال بعد بھی آگے کا لولی پاپ دے رہیں بلکہ اب تو کہتے ہیں کہ ایک حکومت کیلئے پانچ سال کی مدت کم ہے یعنی کہ وہی آمرانہ سوچ کہ اقتدار پر قبضہ کرو اور ملک و قوم کو کھائی میں گرا دو۔ ہمارے اداروں کی ساکھ ختم کی گئی اور قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا کہ وہ جمہوریت اور اپنے حق کی بات نہ کرسکے۔ آمریت کا بیج جس نے بھی بویا اس کی فصل نے نسلوں میں تباہی پھیلا دی۔ ضیا اور مشرف کا انصافی چربہ بری طرح بے نقاب ہوچکا ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اب ایک ادارے نے کسی حد تک کچھ ثابت قدمی کا مظاہرہ تو کیا ہے کہ جس سے لگا کہ اب شاید ادارے جان پکڑ سکتے ہیں مگر سوال یہی ہے کہ ہماری قوم خواب غفلت سے کب جاگے گی اور کب تک ہم ایسے بناوٹی نعروں کے دھوکے میں آتے رہیں گے اور کب ہم قائداعظم کے پاکستان کو علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق سنواریں گے یا پھر ہمیں کسی خونی انقلاب کا انتظار ہے؟ ملک دو لخت ہوا لیکن پھر ایک لیڈر نے ملک و قوم کو کھڑا کیا مگر اس عظیم لیڈر کو جمہوریت کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ ہمیں مایوسی سے باہر نکلنا ہوگا اور جمہوری رہنماؤں کی قربانی اور نظرئیے کو عزت دینی ہوگی۔ نوجوان لیڈر بلاول بھٹو اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی بہادر ماں محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے اس ادھورے مشن کی تکمیل چاہتا ہے کہ جس میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام بھی حاصل کریں اور طاقتور ملک بن کر بھی ابھریں اور یہ اب ہوکر رہے گا۔
تازہ ترین