• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن اور مٹی سے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ مرتے دم تک ساتھ رہتے ہیں۔ عثمان میرا کالج فیلو تھا اور مجھ سے جونیئر تھا۔ کوئی تین دہائیاں قبل وہ بیرون ملک چلا گیا اور پھر جرمنی سے ڈگری لینے کے بعد کینیڈا جا آباد ہوا۔ وہ کینیڈا کے ایک خوبصورت قصبے میں رہتا ہے لیکن ہر رات اپنے اس گندے اور پسماندہ گاؤں کی گود میں سوتا ہے جہاں مچھروں، بدبو اور گندے پانی کے جوہڑوں کی بہتات ہے۔ وہ جسمانی طور پر کینیڈا میں رہتا ہے لیکن قلبی طور پر پاکستان میں سانس لیتا ہے۔ طویل عرصہ بیرون ملک گزارنے کے باوجود وہ پاکستانی اخبارات بھی باقاعدگی سے پڑھتا ہے اور پاکستانی ٹی وی چینلوں سے بھی جڑا رہتا ہے۔ بعض اوقات وہ مجھ سے ایسی خبروں کا بھی ذکر کردیتا ہے جو میری نظر سے گزری نہیں ہوتیں حالانکہ میں توجہ سے اخبارات پڑھنے کا عادی ہوں۔ کل صبح ہی صبح اس کا فون آیا تو لب و لہجہ نہایت مغموم تھا۔ رسمی خیریت دریافت کرنے کے بعد اس نے سانحہ گجرات کا ذکر کیا تو میری آنکھیں بھیگ گئیں اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بھی آنسو پی رہا ہے۔ وہ معصوم بچوں کے زندہ جل جانے کے صدمے سے نڈھال تھا اور نہایت جذباتی ہو کر پوچھ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب میرے ملک میں گڈ گورننس کب آئے گی، قانون کی حکمرانی کو چھوڑئیے پاکستان میں قانون کب نافذ ہوگا اور کب قانون کا احترام کیا جائے گا؟ ہماری سات نسلیں اس دن کا انتظار کرتے کرتے کچھ رخصت ہوگئیں اور کچھ بوڑھی ہوگئیں لیکن حالات بہتری کی بجائے مسلسل زوال کا شکار ہیں۔
آہ بھرتے ہوئے کہنے لگا امریکہ کے ایک سکول میں کچھ بچے مارے گئے تو حکومت نے قومی پرچم سرنگوں کردیا۔ ہمارے ہاں سترہ معصوم بچے جل گئے، قومی پرچم کیا کسی کا سر بھی نگوں نہیں ہوا۔ اب وزیر اعلیٰ سے لے کر حکمران خاندان کے نوجوان نمائندوں تک سبھی افسوس کرنے جارہے ہیں اور مالی امداد دے رہے ہیں۔ کیا ہیرے جیسے بچے کی قیمت محض پانچ لاکھ روپے ہے؟ کیا اس سرکاری چیک سے والدین کا صدمہ کم ہوجائے گا؟ غور کرنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں ہر روز پبلک ٹرانسپورٹ میں سلنڈر پھٹنے ا ور آگ لگنے اور انسانی اموات کے واقعات ہورہے ہیں۔ ہر ضلع میں ٹرانسپورٹ اتھارٹیز موجود ہیں اور غیر معیاری سلنڈروں سے نپٹنے کے قوانین بھی موجود ہیں۔
غم کی لہر میں ڈوب کر عثمان نے کانپتی آواز سے مجھ سے سوال کیا کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف پورے پانچ سال حکمران رہا اور بڑا طاقتور اور موثر حکمران تھا اس کی گڈ گورننس کے قصیدے پڑھنے اور لکھنے والوں کو کیوں نظر نہیں آتا کہ حکومت نے پانچ برس میں غیر معیاری سلنڈروں والی ٹرانسپورٹ کو سڑکوں سے کیوں نہ ہٹایا، اگر قانون لاگو کردیا جاتا تو آج گجرات کا سانحہ پیش نہ آتا۔ رہی نگران حکومت تو یہ محض ڈنگ ٹپاؤ اور وقت گزارو نمائشی حکومت تھی جس سے کوئی توقع ہی عبث ہے۔ نہ جانے ہمارے قانون سازوں کو اس طرح کی نگران حکومت تجویز کرنے کی کیا ضرورت تھی اور وہ آئینی ترمیم کیوں لائے؟یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے ،نئی حکومت کو کوئی بہتر سسٹم لانا ہوگا۔ کہنے لگا مجھے یورپ کینیڈا میں رہتے 30برس ہوگئے۔ گڈ گورننس یا بہتر حکمرانی کا پہلا اصول ہی قانون کی حکمرانی اور دوسرا اصول شہریوں کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ جتنی لاقانونیت آج پاکستان میں ہے شاید اس سے قبل کبھی بھی اتنی نہ تھی۔ قومیں صرف سڑکیں بنانے یا پل بنانے سے ترقی نہیں کرتیں، قومیں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی سے ترقی کرتی ہیں۔ میں گزشتہ سال ایک ماہ کے لئے پاکستان میں تھا۔ پٹوار خانے سے لے کر تھانے تک ہرچیز بک رہی تھی ، رشوت کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، لاقانونیت اور بے انصافی کے دریا بہہ رہے تھے، ہزاروں سکولوں میں استاد اور بنیادی سہولتیں موجود نہیں تھیں اور لاکھوں بچے تعلیم سے محرومی کی تصویر بنے تھے، ہسپتالوں میں مریض ذلیل و خوار ہورہے تھے، خوراک ،دوائیوں اور روزمرہ کی استعمال کی اشیاء میں ملاوٹ عروج پر تھی، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سرکاری مشینری ناکارہ ہوچکی ہے اور حکمران صرف اپنی شان میں قصیدے لکھوانے میں مست ہیں۔ بلاشبہ میاں شہباز شریف محنتی اور متحرک وزیر اعلیٰ تھا جس کا بے پناہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو موجودہ ا نتخابات میں ہوا لیکن افسوس کے میاں صاحب کی ساری توجہ لاہور اور وہ بھی صرف لاہور کی سڑکوں اور فلائی اوورز پر تھی، ورنہ جرائم انتہا کو پہنچ چکے تھے، چوری ڈاکے، پولیس کے ہاتھوں قتل، سیاستدانوں کی سینہ زوری نے معاشرے کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا تھا۔ بلاشبہ میاں شہباز شریف نے لاہور کی ترقی میں اہم کردار سرانجام دیا لیکن ر نگ روڈ پر بنانے گئے دو اوورہیڈ پل خود بخود گر گئے۔ ایک میں جانی نقصان بھی ہوا، مضافاتی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سرگودھا شہر کو موٹر وے سے ملانے والی سڑک کئی برسوں سے نامکمل پڑی ہے اور سینکڑوں سرکاری سکول قبرستانوں میں چل رہے ہیں۔ کیا اسے گڈ گورننس کہتے ہیں، کیا اس طرح قومیں ترقی کرتی ہیں کہ ساٹھ فیصد آبادی صاف پانی کو ترسے اور چند لاکھ کے لئے سستی روٹی اور میٹرو بس سروس چلائی جائے اور اربوں کا خسارہ برداشت کیا جائے۔
عثمان کی دکھتی رگیں اظہار چاہتی تھیں لیکن میں موضوع بدلنا چاہتا تھا۔ میں نے کالج کے پرانے دوستوں کا ذکرچھیڑ دیا تو اس نے ایک دم میری گفتگو کا سلسلہ کاٹتے ہوئے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو ظفر الطاف یاد ہے؟ میں نے جواباً وضاحت کی کہ ڈاکٹر ظفر الطاف ہم سے سینئر تھا وہ لائق طالبعلم اور کرکٹ کا مشہور کھلاڑی تھا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروس میں آیا اور پھر حکومتی ملازمت میں قابلیت اور ایمانداری کے سبب نام کمایا۔ ہم حکومت پنجاب میں اکٹھے رہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا ذکر نہایت احترام سے ہوتا ہے۔ عثمان نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا”میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ اسے تجارتی رقابت کی بنا پر مقدمات میں ملوث کرکے عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ مجھے بہت صدمہ ہوا۔ اسے اپنی قابلیت اور ماہرانہ صفت کی بنا پر کئی بین الاقوامی ایجنسیوں نے ملازمت آفر کی۔ وہ چاہتا تو اسے کینیڈا کی امیگریشن مل جاتی لیکن اس نے ملک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ایسے بے لوث اور ایماندار افسر کے ساتھ یہ سلوک بیوروکریسی کو کیا پیغام دے گا؟ عثمان ابھی مزید گفتگو کے موڈ میں تھا لیکن میں نے اجازت چاہی تو اس نے بھی اجازت دے دی۔ فون بند ہوا تو میں چند منٹوں کیلئے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم بے انصافی، رشوت، ظلم و زیادتی ،محرومی اور ملاوٹ کے ماحول کے عادی ہوچکے ہیں اور یہ مسائل ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس لئے ہمیں لاقانونیت، بے انصافی، محرومی، حکومتی نااہلی، سرکاری مشینری کی کرپشن اور زندگی کے مسائل کا اتنا شدید احساس نہیں ہوتا جتنا بیرون وطن رہنے والے پاکستانیوں کو ہوتا ہے کیونکہ وہ جہاں رہ رہے ہیں وہاں زندگی کے انداز بالکل مختلف ہیں۔ وہ ہماری اذیتناک زندگی پرکڑھتے ہیں جبکہ ہم بے حس ہوچکے ہیں دراصل ہماری بے حسی ہی ہماری بہتری کی راہ میں حائل ہے۔
تازہ ترین