• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں تو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جبکہ تاریخ کی آنکھ قوموں کی آنکھ کا تنکا بھی دیکھ لیتی ہے اور اُنہیں انجام سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ اُن سیاسی جماعتوں نے اپنا انجام دیکھ لیا جنہوں نے عوام کی طرف سے منہ پھیر لیا تھا اور عام آدمی کو ذلیل و خوار کر دیا تھا۔ تاریخ نے اُن کے خلاف کھلا فیصلہ دیا اور اُس جماعت کو بڑی کامیابی سے سرفراز کیا جس کی قیادت جناب نواز شریف کر رہے ہیں۔ وہ قومی سطح پر نومبر 1990ء میں وزیر اعظم کی حیثیت سے اُبھرے تھے اور اُنہوں نے ملکی معیشت کو سرکاری جکڑ بندیوں سے آزاد کرانے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ یہ بڑے حوصلے اور بصیرت کا کام تھا کیونکہ تشکیل پاکستان سے ہماری اقتصادیات ایک ہی ڈگر پر چلی آ رہیں تھیں، کیونکہ ذرائع پیداوار اور زرمبادلہ پر حکومت کا قبضہ تھا اور بڑے بڑے فیصلے بیوروکریٹ کرتے تھے۔ جناب وزیر اعظم نے کمال جرأت اور حکمت سے آزاد معیشت کا انقلاب برپا کیا اور پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ موٹروے کا منصوبہ اُن کا دوسرا عظیم کارنامہ تھا جس کیساتھ ساتھ صنعتی زون قائم ہونا تھے  مگر ترقی اور تبدیلی کی مخالف قوتیں اُنہیں اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئیں اور ملک بہت پیچھے رہ گیا۔ بھارت کے وزیرِ خزانہ ڈاکٹر منموہن سنگھ جناب نواز شریف کی آزاد معاشی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے ملکی معیشت کو مستحکم کرتے گئے اور اِسی بنیاد پردوبار وزیراعظم بن چکے ہیں۔
فروری 1997ء میں تاریخ نے یہ ہوشربا منظر دیکھا کہ جناب وزیر اعظم دو تہائی اکثریت سے برسرِ اقتدار آئے اورقومی یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے وہ صوبہ سرحد میں اے این پی اور بلوچستان میں بلوچ نیشنل پارٹی کو قومی دھارے میں لے آئے۔ وہ جب موٹر وے کا افتتاح کرنے کے بعد لاہور جا رہے تھے تو وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل اُن کی کار چلا رہے تھے۔ پھر 28مئی 1998ء کو اُنہوں نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ چھ ایٹمی تجربات کر کے پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارت کی فوجی دہشت سے آزاد کرا دیا۔ اِس تاریخ ساز فیصلے پر عمل درآمد بڑے دل گردے کا کام تھا  کیونکہ پوری مغربی دنیا پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے پر تُلی ہوئی تھی۔ اِس مقصد کے لیے امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو پانچ بار فون کیا اور پانچ ارب ڈالر امداد کی پیشکش کی  مگر شیر دل نواز شریف طے شدہ موقف پر چٹان کی طرح قائم رہے اور تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دیا۔ بھارت دسمبر 2000ء میں اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد تک لا کر ایک سال تک غراتا رہا  مگر پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد اُسے جارحیت کی جرأت نہیں ہوئی۔اب وہ ایک نئے انداز کے مینڈیٹ کے ساتھ زمامِ اقتدار سنبھالنے والے ہیں۔ اُنہیں اِس بار پہاڑ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ اخلاقی  نظریاتی  اقتصادی اور سماجی بنیادیں حددرجہ کمزور ہیں۔ اِس وقت سارا ملک بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بلبلا رہا ہے جبکہ ہمارے اعلیٰ سرکاری افسر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رقصِ بسمل کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ یہ بے حسی ایک خاص ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہے جس کا خاتمہ کر کے جناب نواز شریف کو پورے نظام کے اندر ایک نئی روح پھونکنا ہو گی۔آج پوری قوم جس بدحالی سے گزر رہی ہے  اُس کا سب سے بڑا سبب بیڈ گورننس ہے۔ یہ جو گجرات میں طلبہ کی وین کا روح گداز حادثہ پیش آیا ہے  یہ اِس امر کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص قانون شکنی میں آزاد اور محفوظ ہے۔ یہ جو فیکٹری میں آگ لگ جاتی ہے اور چار پانچ سو انسان آگ میں تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں  یہ قانون اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزیوں کا شاخسانہ ہے۔ لاہور کے ایل ڈی اے پلازہ میں آگ بھڑک اُٹھی اور دو درجن سے زائد شہری ہلاک ہو گئے۔ یہ پلازہ اِس ادارے کا ہے جس کا بنیادی کام ہی یہ دیکھنا ہے کہ ہر عمارت کے اندر ایمرجنسی کی صورت میں آگ بجھانے کے آلات موجود ہوں اور فائر بریگیڈ اِس میں داخل ہو سکے۔ یہ ہمیں لوڈشیڈنگ کے جس عذاب سے گزرنا پڑ رہا ہے  یہ اُن لوگوں کا کیا دھرا ہے جنہیں میرٹ کے خلاف بڑے بڑے عہدے سونپ دیے گئے۔ وہ رینٹل پاور منصوبوں میں اربوں کا ہیر پھیر کرتے  فرنس آئل کی چوری میں شامل رہتے  اپنے اور آقاوٴں کے پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتے اور نفع بخش اداروں کی بنیادیں ڈھاتے رہے۔
جناب نواز شریف کو سب سے پہلے یہ عہد کرنا اور اِس کا پابند رہنا ہو گا کہ وہ ہر تقرر اور ہر فیصلہ میرٹ پر کریں گے اور قانون کی حکمرانی قائم کر کے دم لیں گے۔وہ عوام کو مراعات یافتہ طبقے سے نجات دلائیں جن کا قانون کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ عدالتیں اُن پر ہاتھ ڈال سکتی ہیں اور وہ ریاست کی طاقت سے عوام کے وسائل اور حقوق ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ جناب وزیر اعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے لیے جناب ناصر محمود کھوسہ کا انتخاب کیا ہے جو انتہائی دیانت دار  باصلاحیت اور فرض شناس افسر کی شہرت رکھتے ہیں اور اُن کا خاندانی پس منظر بھی قابلِ رشک ہے۔ اُن کے والد فیض کھوسہ مرحوم تحریکِ پاکستان میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ”اُمید کی فصل“ میں تحریر کیا ہے کہ میں نے چار بیٹوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی جو فصل تیار کی ہے  وہ ماں کی طرح پاکستان کی خدمت کرے گی۔ اِس تناظر میں ہم یقین کر سکتے ہیں کہ جناب نواز شریف نے گڈ گورننس کی نہایت مضبوط بنیاد رکھ دی ہے اور وزیر اعظم ہاوٴس کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نظریہ دے کر اُمیدوں کے چراغ روشن کر دیے ہیں۔پچھلے دنوں تاریخ کی آنکھ نے ہمارے حالات سے جڑا ہوا ایک اور منظر نامہ بھی دیکھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے کراچی ہال میں سمندر پار پاکستانیوں کے فرائض و حقوق پر ایک سیمینار ہوا جس کی صدارت سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میاں محبوب احمد کر رہے تھے۔ اِس مذاکرے کا اہتمام لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے صدر جناب رفیع رضا کھرل نے کیاجو ایک جواں ہمت وکیل ہیں اور انسانی حقوق سے وابستہ مختلف ادارے چلا رہے ہیں۔ اِن خدمات کے اعتراف میں اُنہیں صدارتی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب جاوید نواز تھے جو مسقط سے آئے تھے جہاں وہ ایک عشرے تک پاکستان کے انویسٹمنٹ قونصلر کے طور پر کام کرتے رہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ستر لاکھ سمندر پار پاکستانی 115ملکوں میں رہتے اور ہر سال تیرہ ارب ڈالر کی خطیر رقم پاکستان بھیجتے ہیں  مگر اُن سے اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا جس کے نتیجے میں وہ جمہوری ممالک میں اَن گنت پریشانیوں اور ذلتوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کی تجویز تھی کہ جو ایجنسی اُنہیں باہر بھیجتی ہے  اُسے قانون کی پاسداری اور وطن سے باہر جانے والے اہلِ وطن کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھنا اور وہ جن ملکوں میں کام کرتے ہیں  وہاں ہماری حکومت کی طرف سے فنی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سمندر پار پاکستانیوں کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے جس میں ترسیلات کا پانچ فی صد حصہ قانونی طور پر جمع ہوتا رہے اور اِس جمع شدہ سرمائے سے صنعتیں لگائی جائیں اور واپس آنے والے شہریوں کے لیے فلاحی ادارے قائم کیے جائیں۔ مجھے شدید احساس ہوا کہ ہم بحیثیت قوم اپنے ہم وطنوں کی طرف سے شدید غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں  تاہم کسی قدر طمانیت بھی حاصل ہوئی کہ جناب شہباز شریف نے لندن میں اعلان کیا ہے کہ تارکینِ وطن کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اُن کا ایک حصہ مختص کیا جائے گا۔ آخر کار فلک سے نالوں کا جواب آ ہی گیا ہے۔
تازہ ترین