• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جو مغرب میں آکر بس گئے ہیں، سچ پوچھئے تو بڑی آفت میں پھنس گئے ہیں۔جب تک ہم اپنے وطنِ عزیز میں رہا کرتے تھے مزے میں تھے۔ انسانی جان کی قدرو قیمت ، زندگی کے احترام اور رگِ جاں کے تحفظ کی ہمیں اگر پروا تھی تو بس کہنے کو تھی۔ لوگ جئیں یا مریں، اس احساس کی کُل عمر بس اُتنی ہی ہوتی تھی جتنی کسی روزنامے کی ہوتی ہے، یعنی دن کے خاتمے سے پہلے پہلے اخبار کا ردّی بن جانا۔ مغرب میں آکر رہے ہیں تو پتہ چلا ہے کہ وہ غضب کی بے حسی اور بلا کی لاتعلقی تھی۔ ذہن اور شعور کے کتنے ہی گوشے ماؤف تھے۔
خِرد مندی ہوئی زنجیر ورنہ
گزرتی خوب تھی دیوانہ پن میں
وہ منظر تبدیل ہوئے یعنی لوگوں کا بڑی تعداد میں مغرب کی جانب سفر کئے ہوئے بھی پچاس برس ہو چلے ہیں۔ یہاں سے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو بے حسی ہم چھوڑ کر آئے تھے، آج تک جوں کی توں ہے۔ مرنا جینا، خصوصاً مرنا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ لوگ اسلحہ اٹھائے گھوم رہے ہیں اور گولی چلاتے ہوئے خیال رکھتے ہیں کہ وہ دو آنکھوں کے بیچ لگے یا باپ مرے تو ساتھ اسکول جاتے ہوئے اس کے نو عمر بچے ضرور بالضرور مریں یا مرنے والی کے لئے ضروری ہو کہ تعلیم کے میدان میں غیر معمولی فلاحی خدمات سرا نجام دے رہی ہو۔ یہ سب تو رہا ایک طرف، ہمیں تو جس بات کی فکر مارے ڈالتی ہے اور کھائے جاتی ہے وہ یہ ہے کہ نئی پارلیمان کا اسپیکر کون ہوگا ، کس پارٹی کو دوسرا اور تیسرا مقام حاصل ہوگا اور اگر دھاندلی کے جن کو بوتل میں بند رکھا جاتا تو کس جماعت کو برتری حاصل ہوتی۔ یہ دیکھ کر ہم نے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں کے بیچ دے دےئے ہیں، انگلیاں انگلیوں میں پرو لی ہیں اور سر جھکا دیا ہے عین سرِ ندامت کی مانند۔
وطنِ عزیز میں اخبار پڑھنے والوں کو انہی باتوں سے دلچسپی ہوگی تبھی تو اخبار سیاسی شعبدہ بازیوں اور حکومت سازی کی چالبازیوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ میں یہ دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہوں کہ انسانی جانوں کا لمحہ بھر میں سوکھے پتّوں کی طرح اُڑ کر خاک میں مل جانا اور اگلے روز تک انہیں بھلا دیا جانا اور پھر ان کا ذکر تک نہ کرنا ، یہ انسانی شعور کیسے اور کیونکر قبول کر لیتا ہے۔ گجرات میں اسکول کی وین میں بھرا ہوا پٹرول بھڑک اٹھا اور سولہ سترہ بچے، روتے اور تڑپتے بچے زندہ جل گئے۔ ایک روز خبر شائع ہوئی ، دوسر ے روز ان کی نماز جنازہ اور سپرد خاک کئے جانے کی تھوڑی سے تفصیل دے کر میڈیا نے گویا اپنی ذمہ داری پوری کی اور سارا دھیان اس طرف لگا دیا کہ وزیر اعظم کے منصب کے لئے کون کون امیدوار ہوگا۔
ہم نے تمام عمر صحافت کی۔ ہم نے پہلے روز ہی یہ بات سیکھی کہ ایک واقعہ ہوجانے ہی کا نام خبر نہیں۔ اس کے بعد اس کا فالو اَپ بھی ہوا کرتا ہے اور بعض اوقات اس فالو اپ میں زیادہ بڑا انکشاف ہوتا ہے جو خبر کا دوسرا نام ہے۔ مگر لگتا یوں ہے کہ کسی کو کیا، جو اپنی جانوں سے گئے ان کے بارے میں اتنا کہہ کر واقعہ سے دامن چھڑالیا گیا کہ اوپر والے کو یہی منظور تھا۔ سولہ کمسن بچے زندہ مرجائیں، سولہ گودیں ذرا دیر میں اُجڑ جائیں۔ کیا یہ اوپر والے کی مرضی تھی یا نیچے والوں کی مجرمانہ غفلت، شرمناک لاپروائی اور حد سے بڑھی ہوئی بدذاتی کا نتیجہ تھا۔ اسکول کی نو عمر طالبات کی آبروریزی ہو رہی ہے، پولیو کے قطرے پلانے والی رضا کار خواتین کو گولی ماری جارہی ہے، گھر کی ملازماؤں کی چمڑی ادھیڑی جارہی ہے۔ استانیاں اپنے گھروں کا عذاب اپنی طالبات پر اتاررہی ہیں۔ بعض علاقوں میں خسرہ کی وبا پھیلی ہے۔ نیم غشی کے عالم میں ماؤں کی گود میں پڑے ہوئے بچّے بے بس ماں کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں، اس طرح کی خبروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہ وقت ہے جب فوج کو مدد کیلئے پکارنا چاہئے تھا، لیکن کسی کا اس طرف خیال بھی نہیں گیا ہوگا۔ برطانیہ میں ایک بچّہ خسرہ جیسے مرض سے مرا تھا۔ اسپتالوں نے اپنے دروازے کھول دےئے اور بچوں کی قطاریں لگ گئیں۔ تین چار روز کے اندر اندر ملک کے بچے بچے کو اس مرض کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ یہ نہیں ہوا کہ میڈیا صرف ہلاکت کی خبر دے کر بیٹھ رہا بلکہ اس نے ٹیکہ لگوانے کی راہ سُجھائی اور والدین سارے کام چھوڑ کر بچوں کو اسپتالوں میں لے گئے۔ قطاریں لمبی تھیں مگر انتظام اعلیٰ تھا۔ شام تک سارے بچے نمٹ گئے۔ یہ تھا میڈیا کا کمال اور اس سے بھی بڑھ کر شعور کا اعجاز۔ ایک انسانی جان بچانے کے سلسلے میں اور ایک انسانی جان ضائع ہونے کے بارے میں آسمانی صحیفوں کی مثال تو بہت دی جاتی ہے، اس کے بعد سنّاٹا چھا جاتا ہے۔ایک تازہ خبر پڑھی کہ پاکستان میں ملک کی ایک وزارت میں دُہری شہریت والوں کو ملازمتیں نہیں دی جائیں گی۔ میری مانئے تو ملک کی کسی بھی وزارت میں دہری شہریت والوں کو ملازمتیں نہ دی جائیں کیونکہ اس منصب پر بیٹھ کر یہ لوگ مغربی معیار اور اقدار کی مثالیں دیں گے اور اجنبی قرار دے کر دھتکارے جائیں گے۔لندن کی ایک مصروف سڑک پر جوشِ جہاد سے سرشار دو افراد نے بھرے مجمع کے سامنے ایک نہتّے برطانوی فوجی جوان کو گھیر کر اس شان سے مارا کہ اُسے مارنے کا سارا سازوسامان کسی قصّاب کی دکان سے لے کر آئے تھے۔ تن سر سے جدا کرنے کا رواج اتنا عام ہو چلا ہے کہ وہ اس کے لئے مناسب گنڈاسا بھی ہمراہ لائے تھے۔ قتل کے بعد خون آلود ہاتھ چلا چلا کر کیمروں کے سامنے تقریر بھی کی۔
واقعہ ہوگیا۔ قوم کو چاہئے تھا کہ اب آگے چلے مگر دسواں روز ہونے کو آرہا ہے۔ قتل کا ذکر جاری ہے۔ جس فٹ پاتھ پر فوجی کی جان نکلی تھی وہاں لوگ روزانہ کئی کئی ٹن پھول چڑھا رہے ہیں اور اس وقت تک چڑھاتے رہیں گے جب تک اُس کام کی تکمیل نہیں ہوجاتی جس کے ذکر سے ہمارے اخبار کے صفحے سیاہ ہوتے ہیں یعنی قاتل کیفر کردار کو نہیں پہنچ جاتے۔ ایک ہم ہیں کہ تھانے میں نامعلوم افراد کی رپٹ ڈال کر ایک بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ اتنے بہت سے ، اتنے بے شمار نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹیں لکھی جا چکی ہیں کہ ڈرتاہوں، کسی روز یہ نامعلوم افراد جتھا بنا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور برسراقتدار آگئے تو کیا ہوگا۔
قدرت نے انسان سے وابستہ دو نعمتیں عطا کی ہیں۔ اوّل انسانی جان اور دوسرے انسانی رشتے۔ کہنے کو تو ان نعمتوں کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا لیکن ایک مسئلہ ہے۔ ان کی قدر وقیمت کو محسوس کرنے اور سراہنے کا ایک الگ ہی خانہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خانہ ہی بند ہو اور اس پر کم علمی کا بھاری ڈھکّن زور سے رکھ دیا گیا ہو تو قصور کس کا ہے؟ قدرت کا؟
تازہ ترین