• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ جس انتخاب کا سیاستدان گزشتہ چھ ماہ سے مطالبہ کر رہے تھے اور انتخابات کے صاف شفاف ہونے پر زور دے رہے تھے وہ ایسی شخصیت کے تحت مکمل ہو گئے جن کو بڑی چھان بین کے بعد متفقہ طور پر چنا گیا تھا۔ اب الیکشن مکمل ہو جانے کے بعد سوائے ایک پارٹی کے تمام پارٹیاں جن میں جیتنے اور ہارنے والی دونوں پارٹیاں شامل ہیں کراچی میں فوج کے تحت دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں، کہیں دوبارہ گنتی کا مطالبہ ہے، دھرنے دیئے جا رہے ہیں، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، دھاندلی نہیں دھاندلا کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ تنگ آ کر خود کمیشن کو کہنا پڑا کہ بین الاقوامی مبصرین نے انتخابات کو صاف شفاف بتایا ہے اس لئے یہ ڈرامہ بازی ختم کی جائے۔
ایک لحاظ سے یہ انتخابات تاریخی تھے جن میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔ آزاد امیدواروں سمیت 148 سیاسی جماعتوں کے24 ہزار سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔ ان میں سیاستدان، زمیندار، وکیل، صنعت کار، کاروباری افراد، ڈاکٹر، سجادہ نشین، پیش امام، طالب علم، مزدور، مرد اور خواتین سب ہی شامل تھے۔ عوام کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے (108 منڈی بہاؤالدین I) میں 18 امیدوار تھے، 18 جماعتیں کامیاب ہو سکیں۔ سب سے زیادہ نشستیں مسلم لیگ (ن) نے، دوسرے نمبر پر پی پی پی، تیسرے نمبر پر تحریک انصاف (اس کے ووٹ 77 لاکھ اور پی پی کے 69 لاکھ رہے) چوتھے نمبر پر ایم کیوایم، پانچویں نمبر پر جمعیت علمائے اسلام رہی۔ مسلم لیگ واحد پارٹی تھی جس نے چاروں صوبوں سے نشستیں حاصل کیں۔ سندھ کی250 کی نشست جیت کر تحریک انصاف تین صوبوں میں اور جمعیت دو صوبوں میں کامیاب رہی۔ باقی تمام پارٹیاں صرف ایک صوبے تک محدود رہیں۔ چار دینی اور ایک سیاسی پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ مع عمر اور ووٹر کی تصویر ووٹروں کی فہرستوں میں لگا کر پھر بھی بوگس اور جعلی ووٹنگ کا الزام لگایا جاتا ہے تو انتخابات کو شفاف بنانے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟
ویسے نتائج ان تجزیوں اور جائزوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہے جن کی پیش قیاسی کی جا رہی تھی۔ سب کا اندازہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آگے، پیچھے رہیں گے۔ وہی ہوا، سب نے پی پی کو تیسرا نمبر دیا تھا جو ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے بالکل درست نکلا۔ البتہ تحریک انصاف کو پنجاب کے بجائے خیبرپختونخوا میں زیادہ کامیابی ہوئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ 18 آزاد امیدواروں، خواتین اور اقلیت کے ووٹ حاصل کر کے تنہا وفاق میں اپنی حکومت بنا سکتی ہے۔ پنجاب میں (ن) لیگ 78 فیصد نشستوں پر قبضہ کر چکی ہے اور وہ وہاں بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ سندھ میں پی پی52 فیصد اور ایم کیو ایم32 فیصد نشستوں پر قبضہ کر چکی ہے، تیسری کوئی بڑی پارٹی سامنے نہیں لہٰذا یہی دونوں حکومت بنائیں گی۔ کے پی میں تحریک انصاف کے پاس 46 فیصد نشستیں ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) قابل لحاظ ہیں۔ ان میں کسی کے تعاون سے حکومت بنے گی۔ بلوچستان میں جمعیت کے پاس 25 اور آزاد امیدواروں کے پاس 33 فیصد نشستیں ہیں۔ یہاں مسلم لیگ کے پاس 8 فیصد نشستیں ہیں۔ پی پی پی اور تحریک انصاف کو کوئی نشست نہیں ملی۔ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ مقامی جماعتیں مل جل کر صوبائی حکومت بنا لیں۔ اگر اس موقع کو ضائع کر دیا گیا تو پھر بلوچستان میں انتشار اور بدامنی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
نگراں حکومت کا کام انتخابات کرانا تھا جو ہو گیا۔ اگرچہ ان میں اس کا کوئی زیادہ عمل دخل نہیں رہا، اب اسے حکومت کی باگیں نئی حکومت کے سپرد کر دینا چاہئیں۔ یکم جون کو اس نے نومنتخب ارکان کا اجلاس طلب کیا ہے۔ اس کا استحقاق صدر مملکت کو تھا۔ اب حلف برداری، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا چناؤ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی خانہ پری، وزیراعظم کا انتخاب، اس کے پروگرام کی ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ویسے یہ ضرور کیا گیا ہے کہ 13جون کو سالانہ معاشی سروے جاری ہو گا اور 15جون کو 2013-14ء کا بجٹ جس کا حجم 26.76/ارب ہو گا جبکہ موجودہ سال کے چار مرتبہ ترمیم شدہ 2050/ارب کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب مزید 6.26/ارب کی فاضل رقم کیسے جمع ہو گی؟
نئی حکومت کے سامنے مسائل کا انبار ہو گا۔ وہ ہر طرف ہاتھ، پیر مارنے کے بجائے ایک منصوبہ بنا کر منظم طریقے سے کام کا آغاز کرے۔ سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی ابتدا کرے۔ چینی وزیراعظم اس سلسلے میں فوری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ بجلی ایسی شے نہیں کہ جیب سے نکال کر پیش کر دی جائے۔ اس پر تو خود عمل کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے بے رحمانہ اقدام کرتے ہوئے بجلی کی چوری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ بیرونی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ آئی ایم ایف سے بامعنی مذاکرات ہیں۔ اگر وزیراعظم کا کوئی دوست ملک آسان شرائط پر قرض دے سکے تو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
جب نئی حکومت ذرا جم جائے تو اس کو ستمبر، اکتوبر میں بارہ سالہ لٹکے ہوئے مسئلے کو حل کراتے ہوئے مردم شماری کرا لینا چاہئے۔ اس غرض کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ حکومت کے پاس پورے ملک، صوبوں، شہروں، قصبوں اور تعلقوں کی نصف آبادی کا مواد موجود ہے۔ اب اس کو 18 سال سے کم عمر کے افراد کو گننا ہو گا۔ یوں بوگس افراد کا شمار مشکل ہو گا مثلاً اس وقت کراچی میں ووٹروں کی تعداد 66 لاکھ 90 ہزار ہے۔ کراچی میں 34,28,324 ووٹ پڑے اور ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب 51.34 فیصد رہا۔ گویا کراچی کی آبادی ایک کروڑ 72/70 لاکھ ہے جبکہ بعض حضرات دو کروڑ کی بات کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آ کر اٹکتی ہے کہ ہر مشکل اور بظاہر ناممکن العمل کام پر نیک نیتی اور منصوبہ بندی کے منظم طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ آگے پیا جو چاہیں ان کی مرضی کے آگے کون دم مار سکتا ہے۔
تازہ ترین