• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان پانامہ لیکس کے معاملات کی تحقیقات کے مسئلے پر تلخی غیر ضروری طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی چار جماعتوں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے پیر کو باہمی صلاح مشورے کے بعد متفقہ طورپر عدالتی کمیشن کے لئے حکومت کے اعلان کردہ ٹرمز آف ریفرنس مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن پہلے شریف خاندان کا احتساب کرے۔ باقی معاملات کے لئے الگ کمیشن بنا لیا جائے۔ نیز الزامات کی جانچ پڑتال فرانزک آڈٹ کے ذریعے کرائی جائے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے کمیشن کے لئے اپنے ٹرمز آف ریفرنس مرتب کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنے طور پر چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو شریف خاندان کے خلاف شہادتیں جمع کرے گی۔ دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ اس نے کمیشن کے لئے جن شرائط کار کا اعلان کیا ہے وہ جامع ہیں تاہم اپوزیشن کو کوئی اعتراض ہے تو وہ کھل کر اپنے مطالبات پیش کرے تاکہ عوام اور حکومت کو واضح طور پر پتہ چلے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ’’دی نیوز‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ تحقیقات کہاں سے شروع کی جائیں، یہ بات ججوں پر چھوڑ دی جائے۔ وہ وزیراعظم کے بچوں سمیت جہاں سے بھی چاہیں تحقیقات شروع کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات ناقابل قبول اور انصاف اور شفافیت کے تقاضوں کے خلاف ہو گی کہ احتساب صرف وزیراعظم کا کیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔ مبصرین کے نزدیک دونوں فریقین کے دلائل وزن سے خالی نہیں۔ اپوزیشن کا یہ کہنا غلط نہیں کہ حکومت کو عدالتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس طے کرتے وقت اسے اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ اگر پیشگی مشاورت کر لی جاتی تو شاید معاملہ محاذ آرائی کی بجائے افہام تفہیم سے حل ہو جاتا۔ ادھر حکومت کے اس موقف میں بھی بڑا وزن ہے کہ کمیشن ملکی یا غیر ملکی فرانزک آڈٹ کمپنی سمیت شفاف تحقیقات کے لئے کسی بھی ادارے کی خدمات حاصل کر سکتا ہے اس لئے یہ فیصلہ ججوں پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ تحقیقات کیسے اور کہاں سے شروع کریں، یہ بات بھی بے محل ہے کہ کمیشن صرف وزیراعظم کے خاندان کا احتساب کرے۔ دوسروں کے لئے الگ کمیشن بنایا جائے۔ اگر انصاف کا تقاضا یہی ہے تو پھر یہ فیصلہ بھی کمیشن کے رکن ججوں پر ہی چھوڑنا مناسب ہو گا اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مالی کرپشن ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس نے زندگی کے تقریباً ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وزیراعظم کا خاندان اگر تنقید کی زد میں ہے تو اپوزیشن کے سرکردہ لوگوں پر بھی منی لانڈرنگ ، قرضے معاف کرانے اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کے الزامات ہیں اس لئے احتساب بلا امتیاز اور سب کا ہونا چاہئے تاکہ جو گنہگار ہیں انہیں سزا ملے اور جو بے قصور ہیں وہ عوام کی نظروں میں سرخرو ہوں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں جو لفظی جنگ لڑی جا رہی ہے وہ سیاست میں کوئی اچھی مثال نہیں، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور تحریک انصاف کے شفقت محمود کی سطح کے سنجیدہ لوگ بھی گرمیٔ جذبات میں ایک دوسرے کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کا قیام اپوزیشن کا مطالبہ تھا جو پورا کر دیا گیا۔ اعتراض اگر ٹرمز آف ریفرنس پر ہے تو اپوزیشن اپنا مسودہ تیار کر کے چیف جسٹس کو بھیجے یا حکومت کو پیش کردے پھر بات چیت کے ذریعے اسے حتمی شکل دے دی جائے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی پیش کرکے سنجیدہ گفتگو سے حل ہو سکتا ہے۔ سیاست سنجیدگی اور متانت کا تقاضا کرتی ہے اور یہ کرکٹ کی طرح شرفا کا کھیل ہے۔ قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاست کو کرکٹ کی طرح کھیلا جائے اور تلخ ترین لمحات میں بھی ’’رولز آف دی گیم‘‘ کی پابندی کی جائے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور کئی دوسرے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ سیاستدانوں کو ان کا مقابلہ افہام و تفہیم ، تحمل اور بردباری سے کرنا چاہئے اور ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے ملک میں انتشار اور عدم استحکام کو ہوا ملے۔
تازہ ترین