• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں۔گزشتہ برس دوطرفہ تجارت کا حجم پہلی بار 12/ارب ڈالر سے بڑھ گیا۔ آئندہ دوتین سالوں میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ حجم15/ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ چینی وزیراعظم نے پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر تعاون کی بھی پیشکش کی ہے۔پاک ،چین دوستی سمندروں کی گہرائی اور ہمالیہ کی بلندی کی مانند قائم ہے۔ چین نے گوادر پورٹ کی تعمیر کے سلسلے میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔گوادرگہری بندرگاہ ہے۔ بحری جہاز اس کے ساتھ آلگتے ہیں۔گوادر پورٹ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل کے راستے پاکستان اور چین کیلئے معاشی طور پر خاصے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ وسط ایشیاء تک اقتصادی راستے ہموار ہونے سے پاکستان کی معاشی ترقی کو مہمیز ملے گی۔ پاکستان نے ہمیشہ چین کی وحدت، خودمختاری اور سا لمیت کی مکمل حمایت کی ہے۔ چین نے بھی ہر آڑے وقت میں پاکستان کے شانہ بشانہ اپنا بھرپورکردار اداکیا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات پر بدلتے ہوئے حالات اثر انداز نہیں ہوسکے بلکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دوستی اور محبت کا یہ سفر مضبوط تر ہوتا گیا۔ پاکستان کو توانائی بحران حل کرنے کیلئے چین کی تعاون کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہئے۔ چین کو پاکستان کی اقتصادی ترقی سے خصوصی دلچسپی ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی سے ہی چین مزید کامیابی کی منزلیں طے کرسکتا ہے۔ چین ایک اقتصادی سپر پاور کے طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے۔گوادر پورٹ کے ذریعے چین کے اقتصادی طور پر آگے بڑھنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ چین پاکستان کا مخلص اور وفادار دوست ہے۔ پاکستانی دوستی کو وہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔گوادر پورٹ کا انتظام و انصرام سنبھالنے سے پاکستان اور چین کی اس ساحلی علاقے کی مشترکہ نگرانی سے بھارتی عزائم اور ریشہ دوانیوں کا راستہ روکا جاسکے گا جو وہ اس حساس علاقے میں پاکستان اور چین کے حوالے سے رکھتا ہے۔ اسلام آباد میں چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ چین توانائی بحران کے مسئلے کو حل کرنے میں پاکستان کی مددکرے گا۔دونوں ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کے مشترکہ منصوبوں پر کام کرنا چاہئے۔گوادر کی بندر گاہ پاکستان،چین اور وسط ایشیائی ممالک کے لئے اقتصادی حوالے سے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ چینی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاک،چین اقتصادی راہداری کے قیام پر اتفاق سمیت 12معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان اور چین میں سب سے بڑامعاہدہ طویل مدت اقتصادی راہداری سے متعلق ہے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔اس معاہدے سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری آئے گی اور پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا۔اس سمجھوتے کے ذریعے گوادر سے چین تک فضائی،سڑک اور ریل کے رابطے کا نظام قائم کیا جائے گا۔ چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ کا یہ بیان قابل تحسین ہے کہ چین اور پاکستان کی آزمودہ دوستی ایک دائمی رشتہ اور گرانقدر اثاثہ ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان نے چین کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے چین کی خودمختاری کی کھل کر حمایت کی اور تائیوان سے ترک تعلق کرکے چین سے تجدید وفا کی۔ چین کو پاکستان کی دوستی اور وفاداری پر ناز ہے۔ دونوں ممالک اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ چینی وزیر اعظم کے حالیہ دورے سے پاک،چین دوستی میں اہم باب کا اضافہ ثابت ہوگا اور اس سے دونوں ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کاآغاز ہوگا۔دونوں ممالک تجارت،سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔باہمی اعتماد اور محبت کے رشتے دونوں ممالک میں صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔عظیم شاہراہ قراقرم،گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ اور کئی بڑے منصوبے پاک،چین دوستی کا ثمر ہیں۔11مئی کے الیکشن کے بعد آنے والے برس پاکستانی معیشت کے حوالے سے خاصے اہم ہیں۔ پاک،چین معاہدوں پر خلوص دل سے عملدرآمد کے ذریعے معیشت کے خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لئے سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چین اور دوسرے ممالک میں نئی منڈیاں تلاش کرنے اور چین کے تعاون سے توانائی کے منصوبوں پر پیشرفت کرنی چاہئے۔ عوامی جمہوریہ چین سے ہم سوئی سے لے کر اعلیٰ ٹیکنالوجی درآمد کرتے ہیں۔اس کے بدلے میں ہم تیار ملبوسات، ڈیری اشیاء، پھل اور دیگر اشیاء چین کو برآمد کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اب افغانستان سے نکلنے کیلئے پرتول رہا ہے۔2014ء تک امریکی و نیٹو فورسز کاافغانستان سے انخلاء مکمل ہونا ہے۔امریکہ جنوبی ایشیاء میں بھارت کو”ٹھیکیدار“بنانا چاہتا تھا۔ اس کے خواب چکنا چور ہوگئے۔چین اور پاکستان کی گہری دوستی اور مستقبل کے منصوبوں سے بھارت بے حد خائف ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے” اپنے کھیل“ میں کامیاب رہے۔ اب چونکہ حالات نے نئی کروٹ لی ہے افغانستان میں امریکہ کی شکست نے بھارتی ناپاک عزائم کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ بھارت کشیدگی کے باوجود چین سے مذاکرات اور معاہد ے کرنے پر مجبور ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال چینی وزیر اعظم کا حالیہ بھارتی دورہ ہے۔ چین پاکستان کو خطے میں ممتاز مقام دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی اس نے ہمیشہ پاکستان کاساتھ دیاہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بغیر بھارتی پاسپورٹ کے چین ویزہ دیتا ہے۔ چین پاکستان کا عظیم دوست ہے۔ پاک،چین دوستی کی جڑیں گہری ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ پاک،چین تعلقات پائیداری کی جانب گامزن ہیں۔پاکستان اس وقت معاشی بدحالی کا شکار ہے۔بلوچستان،قبائلی علاقوں اور کراچی میں بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کی خوفناک صورتحال ہے۔ نوازشریف کی قیادت میں نئی وفاقی کابینہ آئینی وقانونی تقاضوں کے مطابق جون کے پہلے ہفتے میں حلف اٹھائے گی اور اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے پہلے سودن شروع ہوجائیں گے۔یہ سو دن غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔مسلم لیگ(ن)کو بدحال اور دگرگوں معیشت کو درست کرنے کے علاوہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بھی بہتر بنانا ہو گا۔پاکستان اس وقت سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ میں کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔نئی حکومت کو اس جانب فوری توجہ مبذول کرنا ہوگی۔آئی ایم ایف سے ”چھٹکارہ“ حاصل کرکے قوم کو خود انحصاری کی طرف لے جانا ہوگا۔ 11مئی کے الیکشن میں پاکستانی عوام نے مسلم لیگ (ن) کو واضح مینڈیٹ سے نوازا ہے۔ اب اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کو اس نام نہاد ”امریکی جنگ“ سے باہر نکالے۔ الیکشن کے نتائج نے مستقبل کا منظر نامہ بھی بڑا واضح کردیا ہے ۔مسلم لیگ (ن) اور آئندہ کے وزیراعظم نواز شریف پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وعدوں مطابق مسائل حل کریں۔
تازہ ترین