• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف وحکایت … ظفر تنویر
یہ آج کی بات نہیں اسے تو ایک عرصہ ہوگیا ہے، اقتدار میں رہنے کیلئے اور اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے رشوت دینا کوئی نئی بات نہیں اس میں وہ سارے شامل ہیں جنہوں نے سیاست کے ذریعہ عزت بھی پالی اور نام بھی کمالیا، آزاد کشمیر میں تو یہ سب کچھ اتنا کھلم کھلا ہوتا ہے کہ سبھی جانتے بھی ہیں اور اپنا حصہ وصول کرنے کو تیار بھی ہوتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو مخالف جماعتوں کے لوگوں کو اس میں شامل کیا جاتا ہے اور اگر مسلم لیگ یا مسلم کانفرنس کی حکومت ہو تو وہ بھی اپنوں کے ساتھ ساتھ صرف مخالف کو بھی نوازنے کی کوشش کرتی ہے، رشوت کس طرح اور کن کن شکلوں میں دی جاتی ہے اس کا اولین مشاہدہ مجھے 1972ء میں اس وقت ہوا جب آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت تھی اور سردار محمد عبدالقیوم خان آزاد کشمیر کے پہلے منتخب (براہ راست) صدر کی حیثیت سے کرسی اقتدار پر براجمان تھے میرے دوست خواجہ محمد نذیر کو کسی معاملہ میں صدر آزاد کشمیر سے مدد کی ضرورت تھی چنانچہ میں ان کی درخواست لے کر مظفرآباد پہنچا اور دوسرے روز اپنے ایک اور طالب علم رہنما نیراقبال کے ساتھ جناب صدر سے ملا اس روز ایوان صدر کے باہر بہت سے لوگ اپنی گزارشات، معروضات اور مسائل کے ساتھ ان کے انتظار میں تھے میں جس کام کیلئے گیا تھا وہ تو ہوگیا لیکن ساتھ ہی میں نے اپنی نظروں کے سامنے رشوت تقسیم ہوتے دیکھی آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر بیرونی طاقتوں کے قبضے کے باعث کوئی اتنی مالدار ریاست نہیں ہے لہذا رشوت لینے اور دینے کے نرخ بھی آس دور میں کوئی اتنے زیادہ نہیں تھے، میں نے ایوان صدر کے ساہر اس روز لوگوں کا جو ہجوم دیکھا ان میں سے اکثر وہ تھے جو انی جماعتی وابستگی، تعلق یا کسی اور وجہ سے جناب صدر سے مالی امداد کے خواہاں تے پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ صدر آزاد کشمیر ہر ایسے درخواست گزار کی درخواست پر محکمہ جنگلات کو یہ حکم جاری کر رہے ہیں کہ درخواست گزار کو دو یا تین چیڑ (صنوبر) کے درخت الاٹ کردیئے جائیں، جنگلات کا یہ کھلم کھلا قتل عام سبھی کی نظروں کے سامنے ہوتا رہا لوگ بھاگ صدر سے منظوری حاصل کرنے کے بعد یا تو خود ہی درخت الاٹ کرواتے یا اپنی درخواست کسی بڑے ٹھیکہ دار کے ہاتھ فروخت کردیتے اسی طرح جس طرح آزاد کشمیر کے صحافی حکومت کی طرف سے ملنے والے امپورٹ پرمٹ فروخت کرکے اس گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہوجاتے تھے اس دور میں آزاد کشمیر میں کوئی روزنامہ تو شائع نہیں ہوتا تھا البتہ ہفت روزہ اخبارات اور جرائد کی ایک لمبی لائن تھی، ریاست جموں وکشمیر کے نام سے شائع ہونے والے ان اخبارات میں سے صرف چند ایک ہی تھے جو میرپور، مظفرآباد، بھمبر اور کوٹلی سے شائع ہوتے بیشتر ریاستی اخبارات راولپنڈی، سیالکوٹ یا لاہور سے شائع ہونے، ان اخبارات کے مالکان کو اپنے پلڑے میں رکھنے کیلئے حکومت آزادکشمیر انہیں ہرسال اور بسا اوقات سال میں دو مرتبہ ایسے امپورٹ پرمٹ جاری کرتی جو بڑی آسانی مارکیٹ میں فروخت کئے جاسکتے تھے چنانچہ ایسا ہی کیا جاتا اور ہر پرمٹ فروخت کردیا جاتا اور یہ بھی ایک عجب کہانی ہے کہ جس حکومت کی طرف سے یہ پرمٹ جاری کئے جاتے اسی حکومت کے کوئی بڑے افسر اپنے کارندوں کے ذریعہ یہ پرمٹ ’’مدیران جرائد‘‘ سے خرید لیتے کشمیری صحافیوں کو دی جانے والی یہ سیاسی رشوت غالباً اس وقت ختم ہوئی جب بہت سے معاملات آزاد کشمیر حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر کشمیر کونسل کے پاس چلے گئے، سیاسی رشوت کیلئے ایک طویل عرصہ تک راشن ڈپوئوں کا بھی کھلے عام استعمال ہوتا رہا پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں بہت سے پارٹی کارکنوں نے اس میں اپنے ہاتھ رنگے اور راشن بیچتے بیچتے پارٹی کے لیڈر بن گئے، میرپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی بننے کے بعد مسلم کانفرنس کی ہی ایک حکومت میں چیڑ (صنوبر) کے درختوں اور راشن ڈپوئوں کے سر پر پلنے والے رشوت خوروں نے میرپور شہر کو پلاٹ منڈی میں تبدیل کردیا آج بھی ہر حکومت اپنے کسی چہیتے کو اس منڈی کا انچارج بنا دیتی ہے اور اس طرح لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے کہ ان سے پہلے آنے والے بھلے لگنے لگتے ہیں اب جبکہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے ملک کی سب سے بڑی انصاف گاہ عدالت عظمیٰ نے بھی الیکشن کمیشن کو معاملات بہتر بنانے کا مشورہ دیا ہے، آزادکشمیر میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو کل تک ہو رہا تھا یہ سال آزاد کشمیر میں عام انتخابات کا سال ہے، تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پسندیدہ گھوڑوں پر ’’کاٹھیاں‘‘ ڈالنے میں لگی ہوئی ہے کل تک جو ملٹری ڈیموکریسی کے حامی تھے آج وہ حقیقی جمہوریت کے نام پر ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں جو کل پورے آزاد کشمیر کو میرپور کی ہی طرح پلاٹ مارکیٹ میں تبدیل کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے، سبھی سیاسی جماعتوں کی منزل مظفرآباد ہے لیکن کسی ایک جماعت کے پاس بھی اپنے لوگوں کی بہبود کا کوئی پروگرام نہیں، کشمیر کی آزادی تو ان سیاسی جماعتوں کی کبھی بھی منزل نہیں رہی لیکن اپنے لوگوں سے اتنی بیگانی شاید اس سے قبل اتنی شدت سے محسوس نہیں کی گئی نہ کسی کے پاس کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی مستقبل کا نقشہ ہے تو صرف اقتدار کی ہوس وہ جس طرح بھی پوری ہو یہ اس کیلئے تیار ہیں ریاست میں پائے جانی والی تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار صرف یہ دو چار سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ وہ تمام قوم پرست بھی ہیں جو محض ذاتی پسند وناپسند کی وجہ سے قوم پرستوں کو مسلسل بکھری ہوئی ٹکڑیوں میں تقسیم کر رہے ہیں اور نعرہ ان کا یہ ہے کہ ریاست ناقابل تقسیم وحدت ہے۔
تازہ ترین