• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات کا اقرارضرور ی ہے کہ ملک کے حالات کے بارے میں، میں مسلسل مایوسی کا شکار رہا ہوں۔ کوشش کے باوجود، رات کے اندھیرے میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن اب مجھے اس بات کا احساس ہے کہ انتخابات کے بعد امید کا ایک دیا روشن ہوا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب روشن امکانات کا منظر جیسے نظر میں ہو۔ ناامیدی کے پالے ہوئے مجھ جیسے کسی شخص کے لئے یہ صورت حال واقعی ایک نعمت ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ کیفیت کئی دن قائم رہے۔ ظاہر ہے کہ وقت کا یوں ٹھہر جانا ممکن نہیں ہے۔ مرکز میں اور صوبوں میں نئی حکومتیں بننے جا رہی ہیں۔ دشوار راستوں کا سفر شروع ہو رہا ہے۔ منزل واقعی دور ہے۔ مقابلہ سخت ہے۔ جن تلخ حقائق نے ہم پر ستم ڈھائے، وہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نئی قیادت، ایک نئے عزم کے ساتھ، ان حقائق کو تبدیل کرنے کی مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے اس کا نئی بننے والی حکومتوں کی حکمت عملی اور دانش اور قوت عمل پر موقوف ہے۔ اسی لئے یہ سوال ہرمحفل میں گردش کر رہا ہے کہ بطور وزیر اعظم ،نواز شریف کے فوری اقدامات کیا ہوں گے۔ توانائی کے بحران نے پورے ملک کو بے حال کر دیا ہے۔ معیشت لڑ کھڑا رہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ، خاص طور پر کراچی میں، کسی طرح قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تمام کمزوریاں اورکوتاہیاں جو طویل سالوں سے پل رہی ہے اور جن میں چند پیدائشی نوعیت کی ہیں اپنے قدم جمانے کھڑی ہیں۔ ملک جس حال میں ہے اس کے لئے خود نواز شریف نے منجدھار کااستعارہ استعمال کیا ہے۔ غرض سوال وہی ہے جو فیض نے پوچھا تھا: ”اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے/ اب کیسے پار اترنا ہے“۔ میرا خیال ہے کہ تقریباً تمام لوگ جوخبروں کے چینل دیکھتے ہیں اور بہت کم وہ لوگ بھی جو سنجیدگی سے اخبارات پڑھتے ہیں اپنی اپنی جگہ اس گفتگو میں شریک ہیں کہ نئی حکومت یا حکومتوں کو کیا کرناچاہیے اور یہ بھی کہ آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جو شاید میری طرح مایوسی کا نشہ کرتے ہیں یہ دیکھ رہے ہیں کہ اتنی ہمہ گیر تبدیلیوں کے باوجود، چند مسائل ایسے ہیں جو حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ پھر بھی، دل کو کچھ ڈھارس بھی ہے کہ رخصت ہونے والی مرکزی حکومت کی ناقابل قبول حکمرانی کا دور تمام ہوا۔ نواز شریف کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ ایک سہارا انہیں یہ حاصل ہے کہ شہباز شریف نے گزشتہ پانچ سالوں میں، پنجاب میں بہتر حکمرانی کی مثال قائم کی ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے جن امنگوں کو ابھارا ہے اسے بھی ہم قوم کے اجتماعی اعتماد میں ایک طرف کی سرمایہ کاری سمجھ سکتے ہیں۔ وہ نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اب ایک صوبائی حکومت کی قیادت کرتے ہوئے، ان کی پارٹی کو ایک اچھا موقع ملا ہے کہ وہ خود کو منوا سکے۔ پیپلز پارٹی، پنجاب میں اپنی تاریخی پسپائی کے بعد، سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ تو اگر یہ گزشتہ سے پیوستہ والی بات ہے تو ہم لوگ جوکراچی میں رہتے ہیں سانس تھام کر بیٹھے ہیں کہ کوئی تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں۔
اس سارے منظر نامے میں اگلے پچاس یا سو دن نمایاں ہیں۔ ساری توجہ فوری اقدامات پر ہے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاشرے کو جن زہریلے تضادات کا سامنا ہے اس کا ایک مدبرانہ جائزہ لینا اور آج کی دنیا میں اس کی سمت کا تعین کرنا اتنا ہی یا شاید اس سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ٹیلی وژن کے ٹاک شوز نہیں کر سکتے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ ٹیلی وژن کے ٹاک شوز نے اس فریضے کو زیادہ دشوار بنا دیا ہے۔ اسی ہفتے ایک ٹاک شو میں کسی نے کہا کہ بھئی، ہم تو یہ سن سن کر تھک چکے ہیں کہ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اس پر میرا کہنا یہ تھا کہ ہاں، ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ لیکن دوراہے پر کھڑا رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ کریں کہ کس طرف مڑنا ہے۔ اس پرشاعر رابرٹ فراسٹ کی وہ نظم پھر یاد آگئی ہے کہ میرے سامنے دو راستے تھے اور میں نے وہ راستہ چنا جس پر کم لوگوں کے قدموں کے نشان تھے اور اس طرح میری زندگی بدل گئی۔ پاکستان کو کدھر جانا ہے، یہ فیصلہ آسان نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی اور جمہوری اعتدال پسندی کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اسے آپ قدامت پرستی اور لبرل سوچ کے درمیان ایک شدید ٹکراؤ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمیں گہرے مشاہدے اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ملکوں میں یہ کام جامعات اور تھنک ٹینکس اور ریسرچ کے ادارے کرتے ہیں۔ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی میز تک پہنچنے سے پہلے کسی منصوبے یا مشورے کو قطرے سے گہر ہونے کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اہم فیصلے مسلسل ٹالتے رہتے ہیں۔ ایک سوال : اردو سرکاری زبان کب بنے گی؟ بنے گی یا نہیں؟ اوراب آپ یہ نہ پوچھ بیٹھیں کہ انگریزی ہماری مادری زبان کب بنے گی۔ اور اگر آپ پوچھیں بھی تو کوئی کیا جواب دے گا۔ ہم تو بے زبان لوگ ہیں۔میرا کہنا یہ ہے کہ عوام کا دل لبھانے کی کوشش میں مصروف میڈیا میں یہ صلاحیت نہیں ہے اورکہیں بھی نہیں ہوتی کہ وہ معاشی، معاشرتی اور نظریاتی مسائل کی گتھیاں سلجھا سکے۔ اس کے لئے ہمیں شہ سرخیوں کی چلمن کو ہٹا کر، ٹاک شوز کے پر شور دالانوں سے گزر کر اونچی چھتوں والے اس محفوظ ایوان میں داخل ہونا پڑے گا کہ جہاں غور و فکر اور پر سکون مکالمے کی فضا بن سکے۔ جہاں کوئی نئی سوچ دبے پاؤں داخل ہو تو اس کی چاپ کو سنا جا سکے۔ سارا مسئلہ ایک نئے معاشرے کے قیام کا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ایسی وحشت نہ ہو کہ جس کا مظاہرہ ہم صبح شام دیکھتے ہیں۔ سیالکوٹ یاد ہے؟ سلمان تاثیر کا قتل اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ یاد ہے؟ ملالہ یوسف زئی پر کیا جانے والا حملہ یاد ہے؟ ملالہ کا نام آیا ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ دو ہفتے قبل ”دی نیوز“ میں شائع ہونے والے میرے انگریزی کالم کا عنوان تھا۔ ”ملالہ کہاں ہے؟“۔ اس کا حوالہ وہ گفتگو تھی جو اپریل کے آخری دنوں میں، جنوبی کوریا کے اپنے دورے کے درمیان میں نے فون پر ملالہ سے کی تھی۔ یہ مختصر گفتگو میری یادوں کے البم میں سجی رہے گی کیونکہ میری نظر میں ملالہ پاکستان کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ بہرحال میرا سوال یہ تھا کہ انتخابی مہم میں تعلیم کا ذکر توبار بار ہوتا رہا لیکن کوئی ملالہ کا ذکر کیوں نہیں کرتا جب کہ لڑکیوں کی تعلیم کی جدوجہد میں ملالہ کی بہادری اورعزم کو ساری دنیا نے سراہا ہے۔ اس کو وہ مقام دیاہے جو موجودہ پاکستان کی کسی اور شخصیت کے نصیب میں نہیں ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا نواز شریف، وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں، ملالہ کا نام لیں گے؟ اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھے یہ اشارہ ملے گا کہ ہاں وہ پاکستان کے بنیادی مسائل کے بارے میں کسی ایجادی سوچ کے قابل ہیں۔ وہ یقیناً مصروفیت اور کم خوابی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں لیکن یہ کام فوراً انہیں کسی ٹیم کے حوالے کر دینا چاہیے کہ پاکستان کے معاشرے کو مہذب بنانے اور اسے ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے۔ اس کام کو اب مزید ٹالا نہیں جا سکتا ۔ وقت بہت کم ہے۔ روز روز کے کام، جو بہت کھٹن ہیں، اپنی جگہ بہت اہم ہیں مگر مستقبل کا زائچہ بنائے بغیر دہشت گردی یا بلوچستان یا کراچی کے جنگل سے بحفاظت گزرنے کا راستہ دکھائی نہیں دے گا۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ نہ ہم دنیا کو دیکھتے ہیں اور نہ دنیا سے سیکھتے ہیں۔ مجھے ن۔ م۔ راشد کی آواز سنائی دے رہی ہے”ان کہی سے ڈرتے ہو/ جو ابھی نہیں آئی/ اس گھڑی کی آمد کی/ آگہی سے ڈرتے ہو/ تم ابھی سے ڈرتے ہو“۔چلتے چلتے میں اس اتفاق کا ذکر کر دوں کہ جس کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دکھائی دے رہا ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد نواز شریف چھ جون سے باقاعدہ اپنے عہدے پر کام شروع کریں گے۔ چھ جون کا تاریخی حوالہ یہ ہے کہ 1944 میں اس دن اتحادی فوجوں نے نارمنڈی کے ساحل پر اترکر ہٹلر کے خلاف اپنے فیصلہ کن معرکے کا آغاز کیا تھا۔یہ عسکری تاریخ میں سمندر سے کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ تھا۔ اس دن کے بارے میں کئی فلمیں بنی ہیں اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسے ڈی ڈے کہا گیا توکیا 2013ء کے چھ جون کو بھی ہم کسی بڑے معرکے کے آغاز کے طور پر یاد رکھیں گے؟
تازہ ترین