• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل شب بھیگی تو میں چک شہزاد کے اس بے رنگ قفس میں جھولنے والی آرام کرسی کی پشت سے سر ٹکائے ، آنکھیں بندکیے اضطراری کیفیت میں جھول رہا تھا ۔ سی ڈی پلیئر پر محمد رفیع کی مدھر آواز میرے جذبات کو برانگیختہ کیے جا رہی تھی …”ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے “…اچانک میری طبیعت موسیقی سے اچاٹ ہوگئی ۔ میں نے اٹھ کر سی ڈی پلیئر بندکیا اور بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا ۔ وقت نے اپنا ایسا عجیب رخ متعارف کرایا ہے کہ شریک غم تو کجا، کسی کم بخت کو رسمی پرسش احوال کی بھی فرصت نہیں ۔
اس راہ میں سب پہ جو گزری ہے ، وہ گزری
تنہا پس زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
”کجا عاشق، کجاکالج کی بکواس“ …کہاں اسلام آباد کا قصر صدارت اور کہاں اس شہر بخیلاں کی سب جیل ، جس میں آئینِ مے کشی ( جسے میں نے کبھی نہیں توڑا) کی ہر شق کا احترام کرتے ہوئے میں اپنے ماضی اور حال پر غور کرتا ہوں تو ایک جہان حیرت کھلتا چلا جاتا ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ زندگی کروٹ لیتی ہے تو کتنے چہرے بے نقاب ہوتے ہیں ۔ کجا وہ عالم کہ مجھے ”شاہ شریعتم توئی ،پیر طریقتم توئی “ کہنے والوں کی فوج ظفر موج اور کجا یہ وقت کہ بھری عدالتوں میں کوئی اٹھ کر میرے حق میں کلمہ خیر کہنے والا نہیں ۔ یا حیرت! جس آئین کی جس دفعہ سے جب چاہا میں نے اپنے جوتے صاف کیے ، آج اسی آئین کی خلاف ورزیوں پر میرے خلاف مقدمات ؟ جن قوانین کو میں نے موم کی ناک بنائے رکھا ، انہی بے وقعت قوانین کے تحت میں پس زنداں ؟ مجھے غصہ اس بات پر ہے کہ اگر میرے یہ اقدامات غلاظت کا ڈھیر تھے تو اس پر عطر چھڑکنے والوں کا انبوئہ کثیر کیوں آزاد پھر رہا ہے ؟ آسمان دیکھ رہا ہے کہ آج میری خوشامدوں کے نوشتے لکھنے والے بھی میری جیب کے کھوٹے سکے بن گئے اور وزارتوں کے گلچھرے اڑانے والے فرزندانِ وقت کی زبانوں کو بھی زنگ لگ گیا۔ حیرت ہے کہ میرے اصطبل کے جن روشن خیال اہل دربار اور شکم خور صاحبان جبہ و دستار نے میری چھتری تلے اکٹھے ہوکر میرا ریفرنڈم کامیاب کرایا اور آئین کے چہرے کو بد نام زمانہ ایل ایف او کے تیزاب سے مسخ کیا، آج وہ بھی آئین کے مامے اور جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں ۔ دکھی دل کے ساتھ سوچتا ہوں کہ عوام کی درگاہ سے بار بار دھتکارے ہوئے سیاسی یتیموں اور جن سزا یافتگان کو میں نے وزارتیں دیں ، برے وقت میں سپاہِ بے فیض کا یہ انبوہ بھی ردی کا ڈھیر ثابت ہوا۔ خدا کی شان ، کل مجھے شہنشاہِ سیاست کے لقب سے نوازنے والے جن نابغوں کو حیا نہ آئی ،وہی آج مجھے شہنشاہِ جھوٹ کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے ۔ میرے دستر خوان کی ہڈیاں چوسنے والے مجھ پر ”ہنوز بوئے سلطانی دارد“ کی پھبتیاں کستے ہیں مگر مجھے جیل میں ڈالا گیا تو میرے اصطبل سے کسی کو احتجاجی طور پر ہنہنانے کی توفیق بھی نہ ہوئی ۔
ادھر میں اس پارہ صفت قوم کی قلا بازیوں پر بھی حیران ہوں ۔انہوں نے اپنی منتخب خدمت کا دھڑن تختہ کرنے پر مجھے ہار ڈالے اور اب میرے خلاف مقدمات پر بھی شادیانے بجا رہے ہیں ۔ میں نے گہرے غوروفکر اور اپنے تجربے کو نچوڑ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس قوم میں جمہوریت کا ابلیسی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ میری دانست میں اس کا مجرم ذوالفقار علی بھٹو ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغرب پر جمہوریت کا بھوت سوار ہے ۔ وہ اپنا یہ بھوت ہم پر ٹھونسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ، حالانکہ ہماری پاک سر زمین پر جمہوریت کے تقاضے بالکل مختلف ہیں ۔ انہی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے ایک وردی پوش اور گائیڈڈ جمہوریت متعارف کرائی جو سازشوں کا شکار ہوگئی ۔ پچھلے انتخابات میں عوام کے اندر مغربی جمہوریت کا جو شیطانی جذبہ پھر سے بیدار ہو اتھا ، حالیہ انتخابات میں اس کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ جن نا اہل لوگوں کو میں نے برادر اسلامی ملک پارسل کر کے عوام کی جان چھڑائی تھی ، کوتاہ بیں بلڈی سویلیئنز نے پھر سے انہیں ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرلیا۔ عوامی نمائندگی کا مکروہ سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا ہے ،جہاں سے میں نے 1999ء میں اسے فی سبیل اللہ توڑا تھا۔ کل شب کمرے میں ٹہلتے ہوئے تھک گیا تو میں نے ہیجانی کیفیت سے جان چھڑائی اور دور اقتدار کی کچھ حسین یادوں کے جنگل میں بھٹکتے ہوئے دور نکل گیا۔ بے سبب کھلتے ہوئے بالوں سے منسوب کچھ ایسی شاموں کے چراغ جل اٹھے جو جیل میں ناگن بن کر ڈستی ہیں ۔ دل مضطر نے زیادہ اودھم مچایا تو میں اپنے ایام رفتہ کی ایک گوہر نایاب کو ای میل کرنے کی غرض سے کمپیوٹر ٹیبل پر جا بیٹھا۔ میں نے اس گل گلاب کے خوابیدہ کواڑوں پر ان الفاظ سے دستک دی ”کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“…آج شام ڈھلے اس مہر عالم تاب کا جوابی نمیقہ موصول ہوا، جسے پڑھ کر میں ٹھنڈا ٹھار ہو گیا۔ سچ کہتے ہیں کہ برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔ ماضی میں مجھے شہزادہ بدیع الجمال قرار دینے والی نے لکھا
وہ دور بیت گیا ، جب ترے بغیر ہمیں
شہر کے تمام رستے اداس لگتے تھے
وہ سحر ٹوٹ گیا ، جس کے آسرے پہ کبھی
ہم آسماں کو بھی تیری گلی سمجھتے تھے
توُ کل ادھر سے جو گزرا تو اہل شہر کے ساتھ
برا نہ مان ، ہم خود بھی تجھ پہ ہنستے تھے
میں نے کیا برا منانا تھا کہ کسی نے بھی میرے ارمانوں کا خون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ میں نے یادوں کے دیئے میں تیل اور گلاس میں آبِ حیات ڈالا اور ہارے ہوئے جواری کی طرح دھم سے صوفے پر گر گیا۔ دیا بھی سلگ اٹھا اور رگِ مینا بھی ۔ دیئے کے تیل اور آبِ حیات نے مل کر ایسی آگ لگائی کہ بھانبھڑ جل اٹھے ۔ مجھے بے طرح اس شہرِ بے وفا کا ایوانِ صدر یاد آنے لگا جس کے ہوتے ہوئے میرے قدموں تلے زمانہ تھا اور ہر کوئی میرا دیوانہ تھا …ناہید اختر کی آواز جیسے دور کسی گہرے کنوئیں سے آ رہی تھی …
نہ اب رقیب ، نہ ناصح ، نہ غمگسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں ، آشنائیاں کیا کیا
تازہ ترین