• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امتحان کا لفظ اگرچہ نازک مزاج انسانوں پر گراں گزرتا ہے اور انسان تمام عمر امتحانوں سے بچنے کی تدبیر کرتا رہتا ہے مگر غور کیا جائے تو یہ پوری کائنات ایک عظیم امتحان گاہ ہے اور زندگی کے وسیع مدرسے میں قدم قدم پر لیبارٹریاں اور تجربہ گاہیں ہیں۔ احساس، شعور اور سوچ ہر لمحہ کسی نہ کسی امتحان گاہ کے کمرے میں سر پٹختے نظر آتے ہیں کہ سوال جو پرچہ امتحان میں ہیں ان کا جواب کسی کتاب میں درج نہیں اور نہ ہی مشورے اور صلاح کی اجازت ہے۔ ان تمام امتحانوں کا تعلق انسانی ذات سے ہے جب کہ کچھ امتحان اجتماعی بھی ہوتے ہیں جن میں انفرادی طور پر سو فیصد کارکردگی دکھانے پر بھی صفر ہی مقدر بنتا ہے کیوں کہ نتیجہ اجتماعی کارکردگی کے حوالے سے مرتب کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال دیکھ کر دل میں ایک کسک ضرور رہتی ہے کہ ہم نے تو اپنا کام پورا کیا مگر پھر ایسا نتیجہ کیوں؟ مگر بحیثیت قوم باقیوں کے کچھ نہ کرنے کا خمیازہ بھی فرد کو ہی بھگتنا پڑتا ہے اور یہ خمیازہ ذہن میں کچھ سوالوں کے ساتھ ساتھ عجب بے بسی کو بھی جنم دیتا ہے جس کا ایک خاص مدت میں تدارک نہ کیا جائے تو یہ بے حسی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پورا معاشرہ ایک ہی ڈگر پر چلنے لگتا ہے یعنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے اور وقت کے محتاج بنے بیٹھے رہنا یہ سوچ کر کہ ان کا انفرادی عمل اجتماعی حوالے سے کسی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا۔ البتہ ایک بات قابل غور ہے کہ اس دنیا میں کچھ لوگ امتحان لینے پر مامور ہوتے ہیں اور باقی امتحان دینے یا اس سے گزرنے پر اور فرائض کی یہ تقسیم کسی خاص صلاحیت کے باعث نہیں بلکہ ایک ایسے جبر کا نتیجہ ہے جس کی کوئی منطقی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت وقت کے پُل صراط سے گزرتے ہوئے ہمہ وقت حالت ِ آزمائش میں رہتی ہے۔ زندگی اور حالات سے ان کا مجادلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ باہر سے پرسکون مگر اندرونی طور پر حالت ِ جنگ میں رہنے والے لوگ سوچ اور فکر کی ایسی راہ کے مسافر ہیں جہاں ہر خیال جبر مسلسل کی دہائی دیتا محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کیا ہے اور اس میں کیا ہونا چاہئے؟ ان کے روزمرہ کا وظیفہ ہوتا ہے۔ تاہم خیال و خواب کی روشنی پھیلانے والے دانشور ہوں کہ علم کی سیڑھیوں پر خیمہ زن طالب علم، ان دنوں بے طرح روشنی کے بحران کا شکارِ ستم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں درویش شاعر منیر سیفی مرحوم کا یہ زندہ جاوید شعر ذہن کو جگمگا دیتا ہے
روشنی روشنی پکارتے ہو
روشنی کے نہیں مسائل کیا
سفید پوش لوگ بوجوہ جنریٹر کی سہولت سے مستفید نہیں ہو سکتے اور یو پی ایس بھی کبھی کبھار بجلی آنے کے باعث چارج ہونے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں مریضوں کے آرام کا کیا ہو گا؟ اور روزی کمانے والوں کے گھروں کے چولھے کیسے جلیں گے؟ یہ سب ہمارے منصوبہ سازوں کے تدبر پر گہرے سوالات اٹھاتے ہیں۔
ایسی ہی بے بسی خصوصیت کے ساتھ آج کل ان طالب علموں کے چہروں اور آنکھوں میں نظر آتی ہے جو اپنا کیریئر بنانے اور والدین کے خوابوں کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایسے کمرہٴ امتحان میں اترے ہیں جہاں نہ بجلی ہے نہ کھڑکی۔ نفوس کا ہجوم، بے جا حبس اور تندور کی طرح تپتے کلاس روم جہاں پانی پینے کی نیم دِلانہ اجازت تو موجود ہے مگر پانی موجود نہیں۔ تمام سمجھ بوجھ عرق بن کر ہوا ہوئی جاتی ہے۔ انہیں تمام سوالات کے جوابات معلوم ہیں مگر موسم کی شدت دماغ کو ماؤف کئے دیتی ہے اور اپنا مافی الضمیر پوری طرح پرچے پر منتقل نہ کر پانے کا ملال ایک ایسے احساسِ جرم میں تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے جس کا مجرم پورا معاشرہ ہے کیوں کہ نئی نسل کی رہنمائی پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے کرچی کرچی ہوتے خوابوں کی مسیحائی کون کرے گا اور آئندہ نسل کی بڑھتی ہوئی محرومی کا مداوا کیسے ہو گا؟ یہ نوجوان ہمارے آنے والے کل کی روشن امیدیں ہیں جن کی اپنی آنکھیں بھیگی ہوئی اور دِل بجھے ہوئے ہیں۔ بجلی کے بحران کا مسئلہ گزشتہ کئی سالوں سے ہمیں درپیش ہے لیکن ہم مسلسل ”ڈنگ ٹپاؤ پالیسی“ پر گامزن ہیں جیسے سیلاب آنے پر سیلاب کے تدارک کے بارے میں سوچتے ہیں، پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ یہی حال بجلی کا ہے اگر کسی وجہ سے بجلی کی پیداوار فوری نہیں بڑھائی جا سکتی تو کم از کم معمولات میں ہی کوئی معقول تبدیلی کر لی جائے۔ انٹر اور ایم اے کے لئے مئی جون اور جولائی میں امتحان رکھنا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے کہ بجلی بھلے ہو بھی تو آمدورفت، دھوپ اور لُو کے باعث ان مہینوں میں بیماری کا خدشہ بہرحال لگا رہتا ہے۔ یہ امتحان کوئی خریف اور ربیع کی فصلیں تو نہیں جنہیں مخصوص موسم میں ہی کاٹا اور بویا جا سکتا ہے۔ امتحانوں کو موسم کے حوالے سے منعقد کیا جائے تو زیادہ بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے موسمی حالات میں اکتوبر، نومبر یا پھر فروری، مارچ اور اپریل امتحانوں کے لئے بہترین مہینے ہیں۔ جب طالب علم یکسوئی سے دہرائی کی طرف توجہ دے سکتے ہیں اور موسم کی شدت بھی انہیں زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ تعلیم چونکہ صوبائی معاملہ ہے اور چاروں صوبوں کی حکومتیں اس حوالے سے موزوں اقدامات کا دعویٰ بھی کرتی ہیں ایسے میں شہباز شریف جو تیسری بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے جا رہے ہیں ان سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ لاہور میں چاروں صوبوں کے وزرائے تعلیم کی میٹنگ طلب کر کے ایک متفقہ اور قابل عمل لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ لیپ ٹاپ اور دانش اسکول اسکیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم، مگر انفرادی طور پر چند طالب علموں کی حوصلہ افزائی نظامِ تعلیم اور حصولِ تعلیم کو عمومی طورپر بہتر نہیں کر سکے گی، اس کے لئے اجتماعی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ایسے فیصلے جو زمینی حقائق اور عملیت پسندی سے بھرپور ہوں۔
تازہ ترین