• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دوسری جنگِ عظیم کے بعد بین الاقوامی تعلقات کے عالمی منظر میں اقوام کے باہمی تعلقات کی تین بنی بڑی شکلیں عالمی ادارے، تنظیمیں اور معاہدے (اقوامِ متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک، دولت مشترکہ، او آئی سی، نیٹو اور وارسا پیکٹ وغیرہ) ریجنل ارینجمنٹس (جیسے یورپین یونین، آسیان، افریقین، سارک، ایکو اور جی سی سی) اور دوطرفہ تعلقات (جس طرح پاک چین، پاک امریکہ، پاک ترکی، پاک سعودی، بھارت سوویت، یو ایس، یو کے دوطرفہ تعلقات) میں کامیاب ترین ماڈل بحیثیت مجموعی ریجنل ارینجمنٹ کا ہی رہا ہے، جس کی بہترین مثال بریگزٹ (برطانیہ کے یونین سے ازخود انخلا) سے قبل تک یورپین یونین اور آسیان ریجن (مشرق بعید) کی رہی ہے۔ جن کی تشکیل کے بعد ہر دو خطے اور ان کے سب ہی ممالک ان دونوں علاقائی بندوبست کے بڑے بینی فشری بنے اور ان میں خوشحالی عام ہوئی اور ان کا بطور خطہ سیاسی استحکام اور سلامتی کی فکر سے آزادی یقینی ہوئی اور ہے۔ عالمی ادارے، تنظیمیں اور دفاعی معاہدے بحیثیت مجموعی بری طرح ناکام ہوئے، بلکہ ان کی وجہ سے نظریاتی جنگ نے مہلک عالمی سیاست کا آغاز کیا جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور فیصلوں پر عملدرآمد میں بڑی رکاوٹ بن کر عالمی ادارے کے سیاست زدہ ہونے کا باعث بنی۔ عالمی دفاعی معاہدوں سے جنگ عظیم کی اتنی بڑی تباہی کے فوراً بعد ہی پھر اسلحے کی عالمی دوڑ شروع ہوئی۔ غیروابستہ ممالک کی، اقوامِ متحدہ کے بعد دوسری بڑی عالمی تنظیم نام نہاد غیر جانبدار ثابت ہوئی۔دوطر فہ تعلقات میں پاک چین، پاک ٹرکش، پاک سعودی اور انڈو سوویت، یو ایس، یو کے دوطرفہ تعلقات، مثالی اور امتیازی ثابت ہوئے۔

جنوبی ایشیا دنیا کا وہ بدقسمت ترین خطہ ہے جو کتنے ہی اعتبا ر سے ’’ریجنل ارینجمنٹ کی اپروچ اس کی فلاسفی کے مطابق اختیار کرکے کسی بھی ریجن کے مقابل تیز تر ترقی کرنے کی قدرتی صلاحیتوں اور حالات کا حامل‘‘ ہے وہ ترقی جس کا بینی فشری خطے کی تقریباًدو ارب آبادی نے بننا ہے۔ لیکن (وائے بدنصیبی) اس کا کفران نعمت دنیا میں زیر بحث ماڈل کے حوالے سے سب سےبلند درجے پر ہے۔ بدقسمتی تو اس کی 70 سال سے ثابت ہو رہی ہے اور اب اسے حوالے (بدقسمت) سے پہچاننے اور ماننے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ بلکہ اس کی اس منفی حیثیت میں مزید اضافے کے باعث اب اسے ’’بدقسمت ترین‘‘ کہنا بھی غلط نہیں کیونکہ اس کے تمام تر ثبوت سائوتھ ایشیاکے دنیا کا سب سے کامیاب علاقائی بندوبست کے انتہائی سازگار حالات تشکیل ہونے پر بہت کچھ مطلوب کے برعکس ہوا اور ہو رہا ہے۔ کیسے ہو رہا ہے؟ اور کون کر رہا ہے؟ کیونکہ جب پہلے سے قدرتی حالات اور موجود عالمی سیاسی صورتحال نے ماحول کو سازگار بنایا ہے تو پھر بھی مطلوب نہیں ہو رہا تو کیا خطے میں ہی کوئی ’’مین میڈ‘‘ رکاوٹ ہے؟ یہ ملین ڈالر سوال ہر اس شخص، معاشرے، حکومت اور اہل دانش کے لئے بے حد قابلِ غور ہے جو جنوبی ایشیا کو پرامن خوشحال اور مستحکم خطہ بمطابق قدرتی پوٹینشل دیکھنے کا متمنی ہے۔ سوال کا جواب ہے، جی ہاں یہ سب سے بڑی رکاوٹ مین میڈ ہے، جس نے شدید نسلی و مذہبی تعصب سے جنم لے کر پولیٹکل پریشر گروپ، اس سے چھوٹی پارلیمانی سیاسی جماعت اور پھر اسے اپنے تمام تر اور ثابت شدہ متعصبانہ، فسطائی حتیٰ کہ دہشت گردانہ رویے کے باوجود بڑی پارلیمانی طاقت میں تبدیل ہوگئی اور اس نے خطے کی ہی نہیں دنیا کی سب سے بڑی ارتقاپذیر جمہوریہ کو مین ڈیٹڈ ہندو بنیاد پرست مملکت، حکومت اور قوم میں تبدیل کر دیا۔ جی ہاں! آپ درست سمجھ رہے ہیں فقط بھارت کی نہیں مودی کے اور مین ڈیٹڈ آر ایس ایس اور اس کی تابع بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بات ہو رہی ہے جس کو ’’سیکولر جمہوری‘‘ کانگریس کی ہٹ دھرمی نے جنم دیا جس نے بنے عالمی ماحول برائے عالمی امن و حصول حق خودارادیت کے خلاف 45-50 سالہ مزاحمت کرکے مسئلہ کشمیر کو اسلحے کی دوڑ کے ذریعے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بننے تک پہنچایا۔ خود بلاضرورت ایٹمی قوت بنا اور پاکستان کو بننے پر مجبور کیا۔ پاکستان کو دولخت کرنے کو اپنی عظیم کامیابی سمجھا اور خود داخلی سلامتی اور ہر طرف سے سرحدوں پر خطرات پیدا کرنے والے حکومتی اور سیاسی اقدامات کرتی (کانگریس) رہی۔ آج فسطائی مودی کا بھارت جس نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد سے جنوبی ایشیا کے علاقائی بندوبست کے روشن امکانات کو اندھیروں میں تبدیل کر دیا ہے،کیا وہ جنوبی ایشیاکے ہر شہری بشمول بھارت، ہر حکومت اور دنیا پر مکمل بے نقاب ہے؟ مودی ویل مین ڈیٹڈ ہے اور اپنی مستقل سی بے لچک پوزیشن لے کر بدترین اقدامات کر چکا۔

پاکستان کیلئے اس سارے پس منظر کا سبق یہ ہے کہ عالمی سیاست میں امریکی شدید اقدامات سے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ، شیئرڈ ہوگئی ہے۔ یہ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ چین کی نہ رکنے والی اقتصادی طاقت، دنیا کے عوام الناس میں اس کے فائدے اور قبولیت نے اس شیئرڈ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو آج کی ’’بڑی عالمی سیاسی حقیقت‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ چین تو تنہا ہی پوری دنیا میں بااثر ہو رہا ہے، اب روس اور اس کے ساتھ خطے کے پاکستان، ترکی اور ایران جیسے سخت جان اور ایٹمی ممالک، افغان عوام میں امن کی پیاس اور سنٹرل ایشیا کی دنیا میں نکلنے کی بے چینی نے عالمی سیاست کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ سو، پاکستان کو پہلے سے اپنے اختیار کئے بین الاقوامی تعلقات کے کامیاب ماڈل دوطرفہ تعلقات اور گنجائش برابر علاقائی تعاون پر توجہ دینا چاہئے جیسے وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ سری لنکا اسی مطلوب کے مطابق رہا۔

تازہ ترین