• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کو مشورہ دیاہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کریں کہ پاکستان کی حدود میں آنے والے امریکی ڈرون کو گرادیں یا کم از کم ڈرون حملے رکوادیں۔ حالانکہ عمران خان کو پتہ ہے کہ یہ کام نہ تو میاں نواز شریف کے بس میں ہے اور نہ ہی خود عمران خان کے بس میں ہوتا، اگر وہ وزیر اعظم ہوتے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے وہ کام کریں گے، جو انہیں کرنا ہیں اور وہ عمران خان کی ڈکٹیشن کیوں لیں گے۔ خود عمران خان کا بھی معاملہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ خیبر پختونخوا میں وہی کام کریں گے، جو انہیں کرنا ہیں اور وہ بھی نواز شریف کی ڈکٹیشن کیوں لیں گے۔ ہر ایک کو اپنا اپنا کام کرنا ہے۔ پوری دنیا اس بات کا انتظار کررہی ہے کہ عام انتخابات 2013ء کا جو ”نتیجہ “سامنے آیا ہے، اس کے نتیجے میں کس سے کیا کیا کام لیا جاتا ہے اور کون کیا کیا کام کرے گا۔
عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی پارٹی کو ایک ایسے صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے، جہاں گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ آئے روز خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں خودکش حملے اور بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں، جن میں بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں۔ میاں نوازشریف کو بھی یہ کہنا چاہئے کہ عمران خان کی خیبرپختونخوا میں حکومت سب سے پہلے خودکش حملے رکوائے یا ایسے حملے اور بم دھماکے کرانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ میاں نواز شریف تو امریکہ سے ہی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ڈرون حملے نہ کرے۔ شریف برادران جن سے کچھ کہہ سکتے ہیں، وہ کہہ دیتے ہیں۔ عمران خان بھی خیبرپختونخوا میں یہ حملے رکوانے کے لئے اسی طرح کی اپیل طالبان سے کرسکتے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ خود کش حملے اور بم دھماکے ڈرون حملوں کا رد عمل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ڈرون حملے نہیں رکیں گے، عمران خان شاید ایسی اپیل بھی نہیں کریں گے۔ حالانکہ عمران خان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں جو لوگ خیبرپختونخوا یا ملک کے دیگر حصوں میں مارے جاتے ہیں، وہ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے کرانے کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔ اب تک دہشت گردی میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، ان میں سے کسی ایک کا بھی امریکہ کی پالیسی سازی میں نہ تو کوئی عمل دخل ثابت ہوا ہے اور نہ ہی امریکی پاکستان کے غریب عوام کی کوئی بات سنتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی چیخیں بھی وہاں تک نہیں پہنچتی ہیں، جہاں تک میاں نواز شریف اورعمران خان کی رسائی ہے اور جہاں پاکستان کے عوام کے مقدر کے فیصلے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں تو عمران خان کم از کم یہ اپیل ہی کردیں کہ ڈرون حملوں کا بدلہ بے گناہ لوگوں سے نہ لیا جائے۔
خیبرپختونخوا میں حکومت بننے کے بعد عمران خان کو اب یہ طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ وہ اس صوبے سے نیٹو کی سپلائی لائن کاٹ دیں اور طورخم کے راستے نیٹو کے ٹرکوں کی آمد ورفت روک سکتے ہیں۔ اگر وہ طالبان یا دیگر انتہا پسند گروہوں سے کارروائیاں روکنے کی اپیل نہیں کرسکتے تو یہ بات تو ان کے بس میں ہے کہ وہ نیٹو کی سپلائی لائن کاٹ دیں۔ خیبرپختونخوا کی نئی حکومت یہ کام تو آسانی سے کرسکتی ہے۔ عمران خان نے دنیا کو یہ باور کرارکھا ہے کہ وہ امریکہ مخالف سیاست دان ہیں۔ انہوں نے کراچی میں جناح برج پر دو دن تک دھرنا بھی دیا تھا اور نیٹو کی سپلائی لائن روک بھی دی تھی۔ اب تو نیٹو سپلائی روٹ کا کئی سو میل کا علاقہ ان کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ میاں نواز شریف کو مشورہ دینے کے بجائے وہ خود یہ کام کرکے دکھا دیں۔ امید ہے کہ وہ بھی بحیثیت وزیر اعظم عمران خان کو اس کام سے نہیں روک سکیں گے کیونکہ عمران خان کے پاس ” عوامی طاقت“ ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے خیبرپختونخوا اور دیگر قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن کے خلاف امن مارچ بھی کیا تھا۔ جب وہ کراچی میں دھرنا دے کر نیٹو سپلائی روک سکتے ہیں اور امریکہ اور پاکستانی فوج کے خلاف مارچ کرسکتے ہیں تو خیبرپختونخوا میں حکومت ملنے کے بعد طورخم سرحد بندکرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن لگتا ہے کہ عمران خان یہ کام نہیں کریں گے۔
اسے اتفاق ہی کہئے کہ عمران خان اس وقت ”عوامی مینڈیٹ “ حاصل کرنے والے سیاست دان بنے ہیں، جب عرب دنیا میں کئی ” انقلاب“ رونما ہوچکے ہیں اور دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ امریکی مخالفت کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات بھڑ کا کے جو ” انقلاب“ برپا کئے گئے، ان کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا اور بڑے بڑے جغادری امریکہ مخالف سیاستدان دراصل امریکی کارندے تھے۔ ان نام نہاد انقلابوں نے عرب دنیا کا سیاسی کردار تبدیل کردیا اور سامراجی تسلط سے نجات کے لئے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر گزشتہ نصف صدی سے جو تحریک چل رہی تھی، اسے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے غیر موثر بنادیا گیا اور اس کا رخ تبدیل کردیا گیا۔ عرب دنیا کے مصنوعی اور عرب مخالف انقلابوں نے دنیا بھر میں امریکہ مخالف سیاستدانوں کا پول کھول دیا ہے اور یہ بات شایدپاکستان میں بھی ہونے والی ہے۔ نہ تو میاں نواز شریف ڈرون حملے رکواسکتے ہیں اور نہ ہی عمران خان نیٹو سپلائی بند کرسکتے ہیں یا خودکش اور بم حملے رکواسکتے ہیں۔ اگر ڈرون حملے رک بھی گئے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ختم بھی ہوگئیں تو اس میں بھی امریکہ یا ان کے اتحادیوں کی منصوبہ بندی کا عمل دخل ہوگا اور یہ فیصلہ کرنا بھی امریکیوں کا کام ہوگا کہ وہ اس کا کریڈٹ کس کو دیں۔ دنیا میں پاکستان کے بارے میں یہ تاثر بھی قائم نہ کیا جاتا کہ پاکستان میں عوام نے روشن خیال قوتوں کو مسترد کردیا ہے اور وہ بنیاد پرست ہوگئے ہیں۔ جب تک ڈرون اورطالبان کے فیکٹر موجود ہیں، تب تک میاں نواز شریف اور عمران خان کی دائیں بازو کی سیاست کا بھی جواز موجود رہے گا۔ کراچی سے خیبر تک دہشت گردی کی وارداتوں میں روزانہ درجنوں افراد مارے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال کسی جنگ زدہ علاقے میں بھی نہیں ہے۔ ڈرون حملے اگرچہ قابل مذمت ہیں لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی ہونے والی کارروائیاں بھی قابل مذمت ہیں۔ انہیں روکنے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے علاقوں میں ریاست پاکستان کی نہیں ، دہشت گردوں کی عمل داری ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی یہ کارروائیاں بھی اسی طرح نہیں روکی جاسکی ہیں، جس طرح ڈرون حملے نہیں روکے جاسکے۔ عمران خان کراچی میں اپنی ایک کارکن کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کراسکے ، وہ میاں نواز شریف کو ڈرون حملے رکوانے کی تجویز دے رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کراچی میں نیٹو کی سپلائی لائن روک دی تھی۔ یہ ایک باریک نکتہ ہے، جسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین