• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
شکر ہوا کہ آج سے لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی کی جارہی ہے اور تعلیمی اداروں میں بچوں کی واپسی کا عمل شروع ہو رہا ہے ۔ یہ اچھاہے کیونکہ اب والدین اور بچے دونوں گھر کی چار دیواری کی قید سے نکلنا چاہتے ہیں، زوم اور میٹنگز نے بچوں کو پریشان کر دیا کہ سارا دن کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہو لیکن پڑھائی میں وہ دلچسپی نہیں محسوس ہو تی جو اسکول کالج میں ہم جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر ہوتی تھی ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے، ٹیکنالوجی لاکھ فائدے کی چیز ، لیکن پڑھنے یا سیکھنے کا جو مزا کلاس میں آتا ہے اس کی کمی کا احساس موجود ہی رہتا ہے اور بچے اس کمی کو مزید جھیلنے کو تیار نہیں ہیں ۔ والدین کا تو یہ حال ہو گیا ہے کہ گھر سنبھالیں، کام یا بچوں کی تعلیم ۔ لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ یہ فکر بھی پیدا ہو گئی ہے کہ اسکول کالج کھلنے سے کیسز اور اموات میں پھر سے اضافہ بھی ہوگا اور اس بارے میں کرس ویٹی پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ایسے امکانات موجود ہیں لیکن اگر لوگ احتیاط کریں گے تب صورتحال قابو میں رہ سکتی ہے ۔ میٹ ہنکاک تو تسلی دے رہے ہیں کہ کیسز اور اموات میں نمایاں کمی اس بات کا اشارہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ ویکسین بھی اثر دکھا رہی ہے ۔ حالانکہ اب بھی اسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن پھر بھی حالات اب بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کا تازہ اعلامیہ بھی یہ بتا رہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کیسز میں واضح کمی ہو ئی ہے ۔ یعنی لاک ڈاون کی سختیاں اور ویکسین کی تیز رولنگ کام دکھا رہی ہے ۔ حالات بہتر ہو رہے ہیں، زندگی معمول کی طرف جارہی ہے لیکن ابھی بھی لوگوں کی ذمے داری کم نہیں ہوئی ہے ماسک لگانا، ہائی جین اور سماجی فاصلوں کا خیال یہ ابھی بھی ضروری ہے ۔ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو اسکول چھوڑنے جائیں تو ماسک ضرور لگائیں اور اسکول گیٹس پر حالات حاضرہ پر تبصروں سے گریز کریں تاکہ دوسروں سے کم سے کم رابطہ میں آئیں۔ ہائی اسکولوں میں ہفتے میں دو روز کی جانے والی ٹیسٹنگ بھی یقیناً تعلیمی سلسلے میں آنے والے تعطل کو کم کرنے میں مدد دے گی ۔ جہاں بڑی ریاستیں تیزی سے کورونا کو ختم کرنے کی کوشش میں لگی ہیں، وہیں چھوٹے ممالک اب بھی کورونا کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں ۔ ان ممالک میں ٹیسٹنگ بھی کم کی جارہی ہے اور سماجی فاصلہ تو دور دور تک نظر نہیں آتا یہاں تک کے ویکسین رولنگ بھی بہت کم ہے۔ حالانکہ ڈبلیو ایچ او نے تمام بڑے ممالک کو سخت تاکید کی ہے کہ غریب ممالک کو ویکسینز امدادی پرو گرام کے تحت دی جائیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے لیکن ان ممالک میں ویکسینز کو لے کر اتنے ابہام پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ وہاں کی عوام ویکسینز لگوانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں دکھا رہی۔ سنا تو یہ بھی گیا ہے کہ پیارے وطن پاکستان میں بھی یہی حال ہے، چائنا کی تحفہ میں دی گئی ویکسین پڑی سڑ رہی ہے، نا ہیلتھ ورکرز نہ ہی عام عوام، کوئی بھی لگوانے کو تیار نہیں ۔ وہاں تو سیاست ہی زندگی ہے ۔ ایک آئے تو دوسرا اس کو ہٹانے کی تگ و دو میں ہی لگا رہتا ہے ۔ جبھی تو نا ہی نظام زندگی بہتر ہو سکا ہے نا ہی ایسا سسٹم نافذ کیا جاسکا ہے جو ایک مناسب زندگی گزارنے میں معاون ثابت ہو ۔
تازہ ترین