• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی۔۔۔سوئٹزرلینڈ
دنیا میں دو راستے ہیں ایک گمراہی کا راستہ اور ایک حق کا راستہ، اگر ہمتاریخ کے ورق الٹا کر دیکھیں تو ہہیں پتہ چلتا ہے کہ جب بھی انسان نے اصل راہ چھوڑ کر گمراہی کی طرف اپنے آپ کو ڈال دیا تو ھمیشہ رسوائی اور درندگی انسانوں کا مقدر بن گئی کبھی انسانوں نے آگ ستاروں چاند کبھی سورج کبھی پتھروں کبھی بتوں کو اپنا معبود بنا کر ظلم گمراہی کے دلدل میں خود کو دھنسا لیا تو ایسے موقع پر خدا کی رحمت جوش میں آتی رہی ہے اور بھولے بھٹکے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے رسول اور انبیاء ہر قوم میں بیھجتی رہی اور اللہ کے رسول اور انبیاء اللہ کے حکم سے نازل ہو کر اللہ کی وحدانیت کی تعلیم و تدریس اپنی اپنی قوموں کو دیتے رہے خدا نے آخر میں اپنے محبوب ﷺ کو بیھج کر دین کو مکمل کیا اور اپنے محبوب ﷺ کو سفرمعراج کراکے دنیا کو حیران کردیا معراج کے معنی” سیڑھی ” کے ہیں کیونکہ مسجدِ اقصیٰ سے آگے کے سفر کے لیے امام الانبیاء ﷺ کے لیے جنت سے سیڑھی لائی گئی جس کے ذریعے آقا ﷺ آسمان پر چڑھے ”اسرا” کے معنی ”رات کو چلانے یا لے جانے” کے ہیں ، چونکہ نبی پاک ﷺ کا فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک یہ معجزاتی سفر رات کو ہوا تھا اس لیے اسے اسراء سے تعبیر کیا جاتا ہے ، قرآنِ مجید میں بھی اسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ معراج اور اسراء کا مقصد قرآن نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو نشانیاں دکھلانا تھیں ارشادِ خداوندی ہے ” تا کہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں” دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ” یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بڑی بڑی نشانیاں دیکھ لیں” سفر معراج کے تین مراحل ہیں ۔ پہلا مرحلہ مسجر الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر ۔ دوسرا مرحلہ مسجد اقصی سے سدر المنتہیٰ تک ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدر المنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا۔ سور النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کر لیں اس اہم ترین سفر میں اللہ تعالیٰ نے آقا ﷺ کو بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر آسمانوں تک بہت سی نشانیاں دکھلا دیں یہ واقعہ ہجرت سے تقریبا ایک سال پہلے 27 رجب کی رات پیش آیا معراج کی رات آپ کے گھر کی چھت کھلی حضرت جبریل ٰ علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے آپ کو حرم ِ کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آبِ زم زم سے دھویا ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا پھر براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی بیت المقدس پہنچ کر براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا گیا جہاں انبیاء کرام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں کی امامت کرائی انبیاء کو نماز پڑھانے کے بعدآپ کو آسمان کی سیر کرائی گئی۔ اس موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کے سامنے شراب اور دودھ کا پیالہ پیش کیا آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا آپ نے فطرت کو پسند فرمایا آپ ﷺ نے جبرئیل سے کہا اے جبرئیل امین اپنی کوئی حاجت بتاؤ جب میں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں تووہاں عرض کروں جبرئیل نے فرمایا اللہ کے محبوب آپ اللہ سے میرے لئے یہ اجازت لیں کہ روز محشر جب آپ کی امت کے گناہگاروں کے قدم پل صراط پر ڈگمگا جائیں تو میں ان کے لئے اپنے پر بچھا دوں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی خوشی اسکے حبیب کی خوشی میں ہے اور اس کے حبیب کی خوشی یہ کہ نبی کی امت سے پیار کریں نبی کریم ﷺ نے جب سدرةالمنہتیٰ سے آگے کا سفر مبارک کیا تو میرے اللہ پاک نے کہا اے میرے محبوب ﷺ رک جائیں میں خود درودو سلام پڑھ کر آپ ﷺ کا استقبال کرتا ہوں پھر کوئی چیز نہیں رہی ایک اللہ اور ایک اللہ کا رسول ﷺ جانے کتنی صدیاں گزر گئی ہونگی آپ واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ ؑسے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا کہ خدا کی طرف سے کیا حکم ملا ؟ آپ نے فرمایا پچاس نمازیں انہوں نے کہا آپ کی امت اس بات کی طاقت نہیں رکھتی اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا پوچھیں آپ نے جبریل کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا اگر آپ چاہیں تو جا سکتے ہیں اس کے بعد جبریل ؑپھر آپ کو دربار اقدس میں لے گئے تخفیف کیلئے عرض کی تو بخاری کی روایت کے مطابق دس نمازیں اور بعض روایات کے مطابق پانچ نمازیں کم ہوگئیں واپسی پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پھر وہی کہا چنانچہ حضور ﷺ پھر واپس گئے اور دس مزید کم ہوگئیں اس کے بعد کئی دفعہ آئے گئے یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں اور پانچ کا ثواب پچاس کے برابر ہوگا اسکے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام کا مشورہ پہلے والا ہی تھا ۔ لیکن آنحضور نے فرمایا مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ میں اسی پر راضی ہوں تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ سفر معراج کے دوران بہت سی چیزیں دکھائی گئیں آپ ﷺنے جہنم کے داروغہ کو دیکھا جس کانام مالک ہے ۔ وہ ہنستا نہ تھا اور نہ ہی اس کے چہرے پر خوشی یا بشاشت تھی، آپ نے معراج کی رات دجال کو اس کی اصل صورت میں دیکھااس کے بال ایسے ہیں جیسے کسی درخت کی گھنی شاخیں اور وہ ایک آنکھ سے کانا تھا ۔ آپ نے حضرت عیسیٰ‘،حضرت موسیٰ اورحضرت ابراہیم علیہم السلام کو بھی دیکھا۔ معراج النبیﷺ تکمیل انسانیت کی علامت ہے اور خدا نے ثابت کردیا کہ خدا تمام مادی تقاضوں کے باوجود اپنے ایک محبوب بندے کو کتنی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے اتنی شان والے نبی کی ھم امت ھیں وہ نبی ﷺ جن سے خدا کی طرف سے ایک ھی سوال بار بار دھرایا گیا میرے محبوب مانگو کیا مانگتے ھو ایک ھی جواب آیا "میری امت کی مغفرت" کیا آپ آقا ﷺ کی تعلیمات پر عمل نہ کرکے آپ ﷺ کے بتائے ھوئے سیدھے راستے پر نہ چل کر آقا ﷺ کے دل کو تکلیف پنہچائیں گے قیامت کے دن شافع محشر ﷺ کے سامنے شرمندہ ھونا پسند کریں گے فیصلہ آپ کے اوپر ہے۔
تازہ ترین