• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بڑی خوشی کی گھڑی ہے کہ ملک میں جمہوری سفر ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ جمہوریت کا ہی یہ حسن ہے ملک میں ہر بڑی جماعت ”شریک اقتدار بن گئی ہے۔“ مرکز میں اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے مسلم لیگ (ف) اور بلوچستان کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دیا ہے یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی دعوت قبول کر لی ہے۔ خیبر پختوانخوا میں تحریک انصاف نے جماعت اسلامی اور شیر پاؤ کی جماعت سے مل کر کولیشن بنا لی ہے۔ سندھ میں اس بار پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت ہے اور ایم کیو ایم کے بغیر حکومت سازی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ عام انتخابات کے بعد حسب دستور ”دھاندلی“ کی صدائیں بلند ہوئی تھیں اور دلچسپ بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی سندھ میں دھاندلی کے الزامات ہی عائد نہیں کئے بلکہ دس جماعتی اتحاد کے احتجاج میں شامل ہوئی۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کا یہ کہنا درست ہے کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کی بات ہوتی ہے۔ مگر اب سب کو مل کر ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔ ایسی لوٹ مار مچی کہ نہ صرف ملک کا خزانہ خالی ہے بلکہ لوڈ شیڈنگ سنگین ترین مسئلہ بن گئی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اژدھے کی طرح منہ کھولے سب کچھ نگلنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ ملک کے ادارے دیوالیہ ہو گئے ہیں۔ صنعت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ کراچی میں انتظامی طور پر ہرممکن اقدام کے باوجود ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ احتجاج کے باوجود امریکہ ڈرون حملوں کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنا تنہاء ایک جماعت کے بس کا کام نہیں اب تمام تر منتخب جماعتوں کو ”تھال الٹ کر“ مشترکہ طور پر منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ بات کو آگے بڑھانے سے قبل ”تھال“ کا واقعہ سن لیجئے۔ لاہور اندرون اکبری دروازہ ککے زئیوں کا محلہ ہے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں خواتین آپس میں خوب لڑتی ہیں۔ دوپہر میں جب کھانا پکانے کا وقت آتا تو وہ بیچ گلی میں ایک تھال الٹ کر رکھ دیتی کہ سیز فائر ہو گیا۔ کھانا پکانے کے بعد تھال اٹھایا جاتا اور جہاں سے لڑائی بند ہوتی اس مقام سے شروع ہو جاتی جہاں سے ختم ہوئی تھی۔
سب جانتے اور مانتے ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف جمہوری گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتی ہے۔ صاحب اقتدار کو ٹوکتی اور روکتی ہے لیکن تمام ریاستی امور باہمی افہام و تفہیم سے طے کئے جاتے ہیں۔ سارے ملک میں آمریت نے محاذ آرائی کا ایسا تحفہ دیا کہ ماضی میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں اور اپوزیشن محاذ آرائی سے دوچار ہو گئیں۔ ”انتقام و نفرت“ سیاست نے جنم لیا جس کی وجہ سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ ضیاء لحق اور ان کے بعد غلام اسحاق خان کے دور میں کسی بھی منتخب حکومت کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور ”ان دیکھے ہاتھ“ ایسے تھے جنہوں نے حکمران اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کی فضاء قائم نہیں ہونے دی۔ ملک کو چار مارشل لاؤں کے بلیک سسٹم کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ اس دور میں الیکشن بھی ہوئے اور سیاسی جماعتوں نے جمہوریت بحال کرانے کے لئے ان میں حصہ بھی لیا۔ کچھ روشنی تو ہوئی مگر مکمل طور پر اندھیرے چھٹ نہیں سکے۔
2002ء کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی بے دردی سے توڑ پھوڑ کی گئی اس وقت کے آمر پرویز مشرف نے اپنے ایک کلاس فیلو راؤ سکندر کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی میں نقب لگائی اور فاورڈ بلاک بنایا گیا جس میں بی بی شہید کے انتہائی معتمد ساتھی فیصل صالح حیات بھی ایک معمولی سی وزارت کی خاطر ساتھ چھوڑ گئے۔ مسلم لیگ پہلے ہی اقتدار کے لئے ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔ حامد ناصر چٹھہ نے جونیجو لیگ بنا لی۔ میاں منظور وٹو جناح مسلم لیگ کے صدر بن بیٹھے اور ”راج سنگھاسن“ کے لئے پہلے ہم خیال اور پھر مسلم لیگ (ق) بنی۔ بلوچستان کے سردار ظفر اللہ جمالی جو چند روز قبل واپس مسلم لیگ (ن) میں آ چکے ہیں مشرف حکومت کے وزیراعظم بنائے گئے۔ 2008ء میں بیرونی مداخلت رنگ لائی اور آمر وقت کو بے نظر بھٹو سے سمجھوتہ پر مجبور کیا گیا۔ بی بی بینظیر وطن تو آ گئیں لیکن شہید ہو گئیں۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئیں چاہئے تو یہ تھا کہ یہ مل کر حکومت کرتے لیکن ان کا اتحاد دیر پا ثابت نہ ہو سکا۔ اتنا ضرور ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا لیکن جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ کہتے ہیں کہ ایوان اقتدار اندھا بہرہ ہوتا ہے یہی کچھ آصف زرداری اور ان کی حکومت کے ساتھ ہوا۔ ”سب اچھا ہے“ کی صدائیں گونجتی رہیں صاحب طرز شاعر اظہار الحق کا خوبصورت شعر ہے
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسمان جیسے
اور وہی ہوا کہ 2013ء کا الیکشن آسمان بن کر ان پر ٹوٹ پڑا۔ تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ مسلم لیگ ن فتح یاب ہوئی اور جمہوریت کی ٹرین چل پڑی۔ انتخابات کہیں بھی ہوں دھاندلی کی شکایت ضرور آتی ہے تاہم یہ ”اچھی روایت“ ہے سب پارٹیوں نے انتخابات کے نتائج تسلیم کر لئے۔ ملک کے سنگین اور گھمبیر حالات میں وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری قوتیں کے ”ہاتھ میں ہاتھ“ ڈال کر قومی امور پر متحد اور متفق ہو جائیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت پر تنقید نہ کی جائے انہیں ”وعدے“ یاد نہ دلائے جائیں لیکن انہیں کام کرنے کے لئے ”فری ہینڈ“ تو دیا جائے ۔ اب ”نئے سفر“ میں ہمیں ایک بار پھر حکمرانوں اور سیاستدانوں کا اس حسن کے ساتھ ”قبلہ درست“ کرنا چاہئے کہ جمہوریت کے سفر میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو بلکہ انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے۔ سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ہی نہیں بعض ”اَن دیکھی“ سازشوں کا بھی سامنا ہے۔ حکومت اور جمہوری قوتوں کو اتفاق اور آپس میں افہام و تفہیم کی جتنی اس وقت ضرورت ہے ماضی میں کبھی ایسی تو نہ تھی۔ سیاستدان، سول سوسائٹی، اہل علم و دانش اور سب سے بڑھ کر علماء و مشائخ کو وطن کی سالمیت و استحکام، جمہوری ادروں کی مضبوطی کے لئے اکٹھے ہونا ہو گا یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ملک کے درپیش سلگتے مسائل اور عوام کے مصائب کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور انہیں اپنا یہ قومی فر ض ہر صورت ادا کرنا ہو گا۔ سیانے کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دور بہت دور صحراؤں سے ابھرتی ہوئی ”جرس کی آواز“ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے!!
تازہ ترین