• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے حلف اٹھا لئے ہیں۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ بھی تین روز تک مکمل ہو جائے گا۔ اِس وقت تک الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی272عام نشستوں میں سے 261نشستوں کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے مطابق تمام مخصوص نشستوں پر انتخابات مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو186نشستیں حاصل ہوچکی ہیں ۔ پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے جس کی نشستوں کی کل تعداد 40جبکہ تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف کی 35نشستیں ہوچکی ہیں۔ ایم کیو ایم 23نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر اور جے یو آئی ف 14نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ فنکشنل لیگ کی 5، جماعت اسلامی کی 4، پشتونخوامیپ 4، این پی پی 3، ق لیگ 2 دیگر جماعتیں آٹھ اور آزاد 8/ارکان کے ساتھ کل19جماعتیں قومی اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کر رہی ہیں ۔ الیکشن سے پہلے زیادہ تر تبصروں میں یہی کہا جاتا رہا کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑامنقسم مینڈیٹ ہوگا اور اس وجہ سے ملک کو درپیش سب سے بڑے مسائل توانائی اور معاشی بحران سے نمٹنے کا کوئی راستہ نکالنا مشکل ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ن لیگ ایک اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کا رویہ بہت ہی مثبت اور ایک قومی لیڈر کے طور پر سامنے آیا انہوں نے جو پہلی بریفنگ میڈیا کو دی اس میں کہا کہ میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں جس نے بھی گالیاں دیں میں سب کو معاف کرتا ہوں پھر نو منتخب ارکان کے پہلے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک کی بہتری کیلئے دن رات کام کرنا ہے اور اس کیلئے لوگوں کو راضی کرنے سے پہلے اللہ کو راضی کرنا ہے۔ انہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی ملک کو درپیش سب سے بڑے مسئلے توانائی کے بحران کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اس پر قابو پانے کیلئے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد قوم کو پہلے ایک سو دن کا روڈ میپ دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ آج حکومت آئے اور کل بجلی کا بحران ختم ہو جائے ، عوام کو صبر کے ساتھ ہمارا ساتھ دینا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اس حکومت سے بہت سی توقعات ہیں اور انہیں امید بھی ہے کہ حکومت ان کی توقعات پر پورا اترے گی، ملک میں توانائی کا بحران ختم اور معاشی حالات سدھریں گے۔ انڈسٹری کا پہیہ چلے گا اور بیروزگار افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ اب لوگوں کی ان توقعات پر پورا اترنا اس حکومت کی ترجیحات ہونی چاہئیں۔ امید بھی یہی ہے کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ حکومت بنانے سے پہلے ہی جس طرح کے اقدامات ن لیگ اٹھا رہی ہے اس سے آئندہ آنے والے دنوں کیلئے ایک واضح لائحہ عمل سامنے آ گیا ہے۔ مثال کے طور پر میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ کراچی میں امن چاہتے ہیں اس کیلئے وہاں کی حکومت کو وفاق سے جس طرح کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ فراہم کریں گے۔ صوبہ کے پی کے کی حکومت کو بھی اسی طرح کی یقین دہائی کرائی ہے جبکہ دوسری طرف سے صدر زداری اور عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے قومی مسائل کے حل کیلئے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
امید ہے کہ میاں نواز شریف حلف اٹھانے سے پہلے ہی بجلی کا بحران ختم کرنے کیلئے سرکلر ڈیٹ کا انتظام کریں گے پھر ان کے ارادے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے، چیچو کی ملیاں اور نندی پور کے پاور پروجیکٹ کو اپ ڈیٹ کرنے،گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کرنے، بجلی چوری کو روکنے اور بجلی کے بلوں کی ریکوری کے حوالے سے بڑے اہم اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی ہیں کہ وفاقی کابینہ کی تعداد 26/ارکان تک محدود کر کے مختلف وزارتوں کو ضم کر دیا جائے گا اورکچھ کی تنظیم نو کی جائے گی۔ مثال کے طور پر وزارت کمیونیکشن، ڈاک بندرگاہ اور جہاز رانی کو اکٹھا کر کے ایک وزارت بنائی جارہی ہے، داخلہ اور نارکوٹکس کو ملایا جا رہا ہے۔ وزارت شماریات، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور اقتصادی امور کی وزارت کو وزارت خزانہ میں اکٹھا کر دیا جائے گا۔ دفاع اور دفاعی پیداوار ایک ہو جائے گی ۔ اسی طرح وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ملادیا جائے گا۔ وزارت بجلی و پانی،وزارت پیٹرولیم کو ملا کر ایک نئی وزارت توانائی بنائی جا رہی ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف وزارت توانائی اور خارجہ امور کی خود نگرانی کریں گے۔ میاں نواز شریف نے منتخب ہونے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے اخراجات کو 30فیصد تک کم کریں گے اس کیلئے اب اعلان کیا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں رہائش نہیں رکھیں گے بلکہ اس کو کسی اہم کام کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وزیراعظم ہاؤس کے اسٹاف کو بھی کم کیا جا رہا ہے۔ خودسیکورٹی ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بعد کسی اور چھوٹی جگہ پر اپنی رہائش رکھیں گے۔ ناصرمحمود کھوسہ جو بڑی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں انہیں پرنسپل سیکرٹری مقرر کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اسی طرح ذوالفقار چیمہ جنہوں نے ڈی جی پاسپورٹ کی حیثیت سے ابھی حال میں اقدامات کرتے ہوئے پاسپورٹ بحران پر نہ صرف قابو پایا بلکہ یہ رپورٹ بھی سامنے لائے کہ سابقہ حکومت کے دور میں 2ہزار لوگوں کو بلیو پاسپورٹ بنا کر اربوں روپے میں فروخت کئے گئے، انہیں بھی اہم ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں اور انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وزراء اپنی گاڑیوں پر جھنڈے نہیں لگائیں گے اور نہ انہیں گارڈ ملیں گے وہ خود اپنے پروٹوکول کو کم کر کے چند ایک گاڑیوں کا کانوائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے اقدامات بلاشبہ عوام کے اندر امید کی کرن پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح نامزد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کے ترقیاتی فنڈ پر دو سال کیلئے پابندی لگا دیں گے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں30سے45فیصد تک کمی کی جائے گی۔ عوام کو دوسری صوبائی حکومتوں سے بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھائے جانے کی توقع ہے۔
وہ عمران خان کی لیڈر شپ اور کے پی کے کی تحریک انصاف کی حکومت کو بھی مثالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ ملک کی خوشحالی کی خاطر تمام جماعتیں مل کر ان کی توقعات پر پورا اتریں گی اور میاں نواز شریف واقعتا ایک قومی لیڈر ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ڈرون حملوں سے بھی نجات دلائیں گے۔ یہ عوام اپنی حکومت سے کس طرح کی توقعات اور امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عامر کی بھیجی ہوئی یہ نظم عوام کی صحیح ترجمان ہے۔
امید ابھی کچھ باقی ہے،اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو ،اور جینا کوئی جرم نہ ہو
وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں ،اور موسم سارے ملتے ہوں
بس رنگ اور نور برستے ہوں ،اور سارے ہنستے بستے ہوں
امید ہے ایسی بستی کی ،جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ، مرنا بھی عذاب نہ ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو، یہ بستی کاش ہماری ہو،
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو، اس آنگن غم کی شام نہ ہو
جہاں منصف سے انصاف ملے ، دل سب کاسب سے صاف ملے
بس اک ایسی بستی ہو، جہاں روٹی زہر سے سستی ہو،
تازہ ترین