• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوازی لینڈ کا نام آتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے ہم سوئٹزرلینڈ جیسے ترقی پذیر کسی ملک کا موازنہ کر رہے ہیں مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دراصل سوازی لینڈ افریقہ کا ایک انتہائی غریب اور پسماندہ ملک ہے جو 1902ء سے برطانیہ کے زیر اثر ملکوں میں شمار ہوتا تھا اور 1968ء میں آزاد ہوا۔ جس کی کل آبادی 12لاکھ سوازی باشندوں پر مشتمل اور رقبہ 191کلو میٹر ہے اور فی کس آمدنی سوا ڈالر یومیہ ہے۔ اس ملک میں بادشاہت کے ساتھ ساتھ نام نہاد جمہوری نظام بھی رائج ہے۔ موجودہ بادشاہ جن کا نام سواتی سوم (III) ہے ۔ 1986ء میں اپنے آنجہانی بادشاہ سبازا جن کا انتقال 1982ء میں ہوا تھا بادشاہ بنے ۔ تمہید اس لئے لکھی تاکہ میرے قارئین کو ان کے ملک سے آگاہی ہو سکے۔ اصل وجہ گزشتہ ماہ راقم لندن اپنی بیٹی سے ملنے گیا تھا تو ایک نوجوان سوازی لینڈ کی لڑکی Ngobeniجس کی عمر صرف 22سال تھی۔ سوازی لینڈ ایمبیسی کے باہر اکیلی مظاہرہ کر رہی تھی، اس کے ہاتھ میں ایک بینر تھا جس میں لکھا تھا کہ سوازی لینڈ میں جمہوریت بحال کرو ۔ اخباری نمائندوں نے جب اس کا انٹرویو لیا تو اس نے روتے ہوئے انکشاف کیا کہ سوازی لینڈ کا بادشاہ سواتی (III)اس کو زبردستی اپنی چودہویں ملکہ بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ڈر سے وہ 2007ء میں جب اس موجودہ بادشاہ کی چھٹی ملکہ کی شادی کی تقریب میں شریک تھی تو وہ بادشاہ کو پسند آ گئی ۔ اس وقت اس کی عمر صرف 15سال تھی ۔ بادشاہ کے ڈر اور ناراضی سے بچنے کیلئے وہ برطانیہ پڑھنے کے بہانے اپنی ماں کے ساتھ بھاگ آئی پھر جب سے بادشاہ گاہے گاہے اس کے ہاسٹل میں فون کر کے شادی کا ذکر چھیڑتا رہتا تھا جس کو سن کو وہ مصلحتاً خاموش رہتی تھی۔ 2007ء میں اس نے بادشاہ کے ڈر سے پناہ کی درخواست برطانوی امیگریشن میں داخل کی جو2011ء میں مسترد کر دی گئی۔ اپریل 2013ء میں اس کو غیر قانونی برطانیہ میں رہنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا اور اس کو ملک بدر کرنے کیلئے کیمپ میں نظر بند کر دیا گیا۔
اب اس کے وکیل نے اس کی قانونی مدد کی اور رہائی دلوائی ہے۔ اگر اس کو ملک بدر کر کے سوازی لینڈ بھیجا گیا تو اس کو خطرہ ہے کہ یا تو بادشاہ اس کو زبردستی ملکہ بنائے گا جو اس کو نا پسند کرتی ہے ۔ اس بادشاہ کی عمر45سال ہے، اس کی13بیگمات پہلے ہی سے ہیں اور سوازی لینڈ کے قانون کے مطابق بادشاہ کو ہر سال ایک نئی شادی کی اجازت ہوتی ہے اور وہ ہر سال اگست کے مہینے میں ایک نوجوان دوشیزہ سے شادی رچاتا ہے۔ جس کیلئے ہر سال ماہ اگست میں تقریباً 80ہزار کنواری دوشیزائیں اس کے محل میں 8روز تک رقص کر کے اپنی شادی کی آمادگی ظاہر کر کے ملکہ بننے کی تمنا کرتی ہیں مگر اس سال بادشاہ نے مجھے شادی کا پیغام بھجوایا ہے ۔ اس کیلئے اس نے سوازی لینڈ سے اپنے خفیہ آدمی بھی بھجوائے ہیں جو کسی وقت بھی مجھے اغوا کر کے سوازی لینڈ لے جائیں گے ۔ سوازی لینڈ میں کسی کی مجال نہیں ہے کہ جو بادشاہ کی مرضی کے خلاف آواز بلند کرے۔ اس کی سزا جیل کی قید اور موت اس کا مقدر بن سکتی ہے لہٰذا حکومت ِ برطانیہ اس کی حفاظت کا بندو بست کرے ۔ وہ ہرگز موجودہ بادشاہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی بلکہ وہ بالغ اور خود مختار ہے اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی ہے اور بادشاہ کی غلام نما ملکہ نہیں بننا چاہتی ہوں۔ سوازی لینڈ کے قانون کے مطابق تمام ملکائیں صرف اور صرف بادشاہ کی خوشیوں کو مدِنظر رکھ کر ہی محل میں سخت پہرے داروں کی موجودگی میں رہتی ہیں اور بادشاہ کی مرضی کے خلاف محل سے باہر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں ۔ اگر بادشاہ کی اجازت ہو گی تب ہی ملکائیں محل سے باہر جا سکتی ہیں ۔ صرف سال میں ایک بار اس کی ملکہ امریکہ کی سیر کو جا سکتی ہے ۔ اس کے تمام اخراجات حکومت ِ سوازی لینڈ برداشت کرتی پڑتی ہے ۔ اس کو ایسی غلامی سے سخت نفرت ہے جبکہ اس بادشاہ کے 27بچے بھی ہیں ۔ اس کی چھٹی ملکہ اس کے ظلم سے تنگ آ کر محل سے خفیہ طور پر فرار ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس کے وکیل نے عارضی رہائی اور اس کو برطانیہ کی ہوم آفس اپیل کرنے کی بھی اجازت دلوا دی ہے مگر اس سے اس کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب تک اس کو برطانیہ کی حکومت پناہ نہیں دے دیتی۔ اس کو اپنی جان جانے کا خطرہ بھی ہر وقت لاحق ہے ۔
قارئین اندازہ لگائیں آج کے ترقی یافتہ دور میں بادشاہ مطلق العنان بن کر جمہوریت کی آڑ میں اپنے عوام پر کس طرح کے مظالم ڈھا رہے ہیں اور پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔ سوازی لینڈ افریقی ممالک میں سب سے زیادہ غریب ہی نہیں بلکہ غیر تعلیم یافتہ اور یہاں امریکی ہیلتھ سوسائٹی کی سروے رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ایڈز کے مریض رہتے ہیں ۔ جن کا آبادی کے لحاظ سے 26فیصد حصہ ہے ۔ پورے ملک میں ایک لاکھ افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے یعنی پورے ملک میں صرف 16سرکاری ڈاکٹر ہیں جبکہ اس ملک میں ایڈز کے علاوہ کینسر ، دل کے مریض اور بخار کے علاوہ متعدد بیماریاں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں ۔ ہزاروں مریض تو علاج کے بغیر ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ گویا جس ملک میں طبی سہولتیں ہی نہ ہوں اس ملک کا بادشاہ 80ہزار خواتین کو ہر سال اپنے محل میں نچوا کر اپنی ملکہ چننے اور عوام خاموشی سے اس کا تماشا دیکھیں اور اُف تک نہ کہیں ۔ اگر بیرونی امدادیں نہ ملتی تو 2008ء میں سوازی لینڈ بھی دیگر افریقی ریاستوں کی طرح خصوصاً زمبابوے کی طرح بینک دیوالیہ ہو جاتا اور عوام بھوکوں مر جاتے مگر بادشاہ کو اپنی تفریح اور عیاشیوں سے فرصت نہیں ملتی مگر دنیا نے ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں ۔ بادشاہ کو برطانوی حکومت کی بھی آشیرباد حاصل ہے۔ گزشتہ ملکہ برطانیہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر اور شہزادہ ولیم کی شادی کے موقع پر پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کو ٹھہرایا گیا تھا۔
تازہ ترین