• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں بہت سے لوگ اپنی تکالیف پہ شکوہ سنج ہیں ۔اگرآپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا میں صرف دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہر حال میں خوش ہیں ۔ دوسرے وہ جو کسی حال میں خوش نہیں ۔ میں نے پہلی بار یہ تب محسوس کیا، جب میں ایک ایسے شخص سے ملا ،جس کے تین بیٹے ایب نارمل تھے اور بیٹی فوت ہو چکی تھی ۔ ان سانحات کا شائبہ بھی اس کی شخصیت میں جھلکتا نہ تھا بلکہ میرے سوالات کے جواب میں ،یہ بات اس نے برسبیلِ تذکرہ ہی بتائی تھی ۔

جتنا اور جس قدر انسان جانتا چلا جاتاہے، اتنا ہی وہ حیرت میں ڈوب جاتاہے۔ حیرتوں کا یہ سفر اگر راس آجائے تو موت تک جاری رہتاہے۔ جو جتنا جانتاہے، اس کی گفتگو میں دانائی بڑھتی جاتی ہے؛حتیٰ کہ وہ خدا کی منشا کو سمجھنے لگتاہے۔ پھر وہ ا س کے سامنے جھک جاتاہے۔ اس کے بعد وہ پرسکون ہو جاتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صبر کے لئے علم ضروری ہے ۔خضرؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ آپ کو جس بات کا علم ہی نہیں ، اس پہ آپ بھلا کس طرح صبر کریں گے ؟

دوسروں کی طرح ایک دانا انسان کی زندگی بھی حادثات اور سانحات سے گزرتی ہے۔ اسے بھی کاروبار میں نقصان پہنچتا ہے۔کبھی صحت گر بھی جاتی ہے لیکن ان صدمات سے وہ سلامت گزرتاہے۔ اسے دیکھ کر یقین ہو جاتاہے کہ خدا بندے کو اس کی ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا، ہاں مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنی استطاعت (Capacity) سے آگاہ ہی نہیں ہوتی۔ ہم تکلیفو ں میں روتے دھوتے، شکوے شکایات کرتے گزرتے ہیں۔ مصائب، تکلیفوں اور آزمائشوں سے ہر انسان کو گزرنا ہے۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے۔ اب ہم ان میں عقل و حکمت کی مدد سے، صبر اور خدا کی مدد سے راستہ بناتے ہوئے گزرتے ہیں یا پھر چیخ و پکار کرتے ہوئے، یہ اختیار ہمیں دے دیا گیا ہے۔

وہ شخص جو خدا کی منشا کو سمجھ لیتاہے، وہ کافی حد تک خواہشات سے آزاد ہو جاتاہے اور وہی کامیاب ترین لوگوں میں شمار ہوتاہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کاروبار اور ضروریاتِ زندگی سے اپنا ہاتھ اٹھالے۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مال کمانے کی تدبیر ضرور کرتاہے لیکن کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں وہ راضی رہتاہے اور پھر ایک نئی تدبیر کے ساتھ، ماضی کی ناکامیوں سے سیکھ کر بہتر طریقے سے میدان میں اترتا ہے۔ حکمران طبقات، سیاسی اشرافیہ کو دیکھیں تو وہاں دو ہی طرح کی جدوجہد نظر آتی ہے، ایک اقتدار حاصل کرنے کی اور دوسری دولت میں اضافے کی۔آدمی ان خواہشات کا غلام ہو جاتاہے،حالانکہ ایک حد سے زیادہ جب دولت بڑھ جاتی ہے تووہ ہمارا رزق ہوتاہی نہیں۔

میں دن میں محدود مقدار میں کھانا کھا سکتا اور لباس پہن سکتا ہوں۔ اس کے بعد جو اضافی اربوں ڈالر میرے بینک میں موجود ہوں گے، وہ دوسروں کا رزق ہیں۔ ہو سکتاہے کہ نو دولتیوں کی طرح مجھ پر اپنی ضرورت سے بڑھ کر گاڑیاں رکھنے کا جنون سوار ہو جائے۔ اب میرے ہاتھ سے گاڑیاں بنانے والوں کو رزق پہنچتا رہے گا۔ ہو سکتاہے کہ میں ایسی گھڑیاں استعمال کرنا چاہوں، جن پر ہیرے جڑے ہوں تو یہ ہیرے کی کان میں کام کرنے والے محنت کشوں سے لے کر گھڑی بیچنے والے کا رزق بن جائے گا۔ اگر آپ بل گیٹس اور مارک زکربرگ جیسے لوگوں کو دیکھیں جو بڑے پیمانے پر سماجی بہبود کا کام بھی کرتے ہیں تو ان کے جسم پر آپ کو کوئی برینڈڈ چیز نظر نہیں آئے گی۔ اس کے برعکس ایک خاص کلاس کے لوگوں میں اگر کوئی اچھے برینڈ کی چیز نہیں پہنے گا تو باقی اس کا مذاق اڑائیں گے۔

انسانی تاریخ میں ان گنت لوگ اپنی خواہشات کے تعاقب میں قتل ہو ئے ہیں ۔ جائیداد پہ کس قدر ہلاکتیں ہوتی ہیں، وہ ہم سب کو معلوم ہیں۔ ایک مرلے زمین پر سگے بھائی، باپ بیٹا ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ زمین کیا ہے؟ زمین کے جس ٹکڑے کو آپ اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں، جسے ایک ایک مرلے کے حساب سے خریدا اور بیچا جاتاہے، اس کے اوپر اور اس کے نیچے کتے، بلیاں، کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو، چڑیا، کوّے، نہ جانے کتنی مخلوقات بیک وقت رہتی ہیں۔ ہم اسے اپنی ملکیت سمجھتے رہتے ہیں اور پھر بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔ زمین وہیں رہ جاتی ہے۔ آپ چاند پر دیکھیے، کروڑوں ایکڑ زمین بیکار پڑی ہے۔جس روٹی، کپڑے اور مکان کے لئے ہم لڑتے ہیں، جس سونے اور تیل کے لئے لڑتے ہیں، وہ سب کے سب ذرائع اسی زمین میں سے اگتے ہیں یا زیرِ زمین دفن ہیں؛حتیٰ کہ کرنسی نوٹ کپاس سے بنتے ہیں۔ یہ سب وسائل رکھ دیے گئے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کس کے حصے میں کتنا آئے گا۔ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں لیکن یہ کوشش انسانوں کی طرح ہونی چاہئے، جانوروں کی طرح نہیں۔

خدا کہتا ہے کہ صرف ایک آدمی درکار ہے، اس زمین و آسمان کو قائم رکھنے کے لئے صرف ایک بندہ ء خدا درکار ہے۔ اگر ایک مثالی دنیا تعمیر کرنا مقصد ہوتا تو خدا ہمارے دماغوں میں خواہشات کم کر دیتا، ایثار بڑھا دیتا۔ بیماری اور بڑھاپا ختم کر دیتا۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جوجاندار بھی پیدا ہوا، بہرحال اسے تکلیف سے گزرنا ہے۔ بیماری، بڑھاپے اور موت سے بڑھ کر کیا تکلیف کسی کو پہنچ سکتی ہے؟ انسان حالا ت میں بہتری کے لئے جدوجہد کر سکتاہے لیکن اسے خدا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔یہ دنیا 'سب اچھا‘ کے لئے بنی ہی نہیں۔ ایک کشمکش کے لئے وجود میں آئی ہے۔ آخری تجزیے میں انسان ان پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، جو اس زمین پر آباد رہی ہیں۔اپنی اس اوقات کو ہمیں پہچان لینا چاہئے۔ اس کے بعد انسان صابر ہو جاتاہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین