• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

74سال کی عمر میں کوئی ایسی حرکتیں کررہا ہو تو کتنا معیوب لگے؟مگر یہ پاکستان کی اشرافیہ 1947 سے ایسی معیوب حرکتوں کے مظاہرے کرتی آرہی ہے۔

سر ندامت سے ہمارے جھکتے ہیں لیکن یہ ضمیر خریدنے بیچنے، ملکی خزانہ لوٹنے، غریبوں کی امانتیں ہڑپ کرنے،اپنے خاندان کی عزت ڈبونےاور ملک کا نام مسخ کرنے پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ اسی طرح بازاروں ،چوراہوں، اقتدار کے ایوانوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ لاکھوں غلاموں کی بھی، جو دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتے ہیں۔ ننگے پیر پھرتے ہیں۔ جن کے پاس رہنے کو بھی معقول چھت نہیں ہے۔ مگر وہ اپنے آقائوں، جاگیرداروں ، پیروں، مرشدوں، سیدوں، رئیسوںاور چوہدریوں کی چاکری سے منہ نہیں پھیرتے۔آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت میں حاصل کی جانے والی وسائل سے مالا مال سر زمین 74سال بعد اس مقام پر ہے جہاں اسے ہونا چاہئے تھا؟

یاران تیز گام نے محمل کو جالیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

کروڑوں نادار، مجبور، مقہور، پامال دالبندین سے کوئٹہ ، کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے گھوٹکی، گھوٹکی سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے راولپنڈی، پنڈی سے طورخم تک کبھی تبدیلی لانے کے دعویدار اور کرپشن کے دشمن عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمٰن کی جانب۔ کسی دن کسی لمحے ان کی تکلیفیں دور کرنے کی بھی خبر ملے۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ ناجائز آمدنی بحق سرکار ضبط نہیں ہورہی لیکن بیس کروڑ جن کی انتہائی بنیادی ضروریات ان کی بہت محنت سے کمائی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں، اس فرق کو پورا کرنا جس ریاست کی ذمہ داری ہے اس کے نگہبان تو انتخابیوں کو خریدنے اور توڑنے میں وقت گزارتے ہیں۔ ملک کے اصل مالکوں، طاقت کے سر چشمہ عوام کو ناشتے میں کیا ملتا ہے۔ یہ عمران خان پوچھتے ہیں۔ نہ بلاول بھٹو زرداری نہ مریم نواز ۔آخر عمران خان کو عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے سے کون روک رہا ہے۔ کون بتائے گا کہ سبسڈی دیں۔ آٹا، چاول، چینی، سبزیاں سستی کریں۔

آج کا دن بھی بہت اہم ہے۔ آج بھی ضمیر خریدے جائیں گے۔ جمہوریت آج بھی سرِ بازار ناچے گی۔ آج بھی چند ہزار غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ یہ جو ارکانِ سینیٹ چار پانچ کروڑ فی کس وصول کریں گے ۔ وہی تو ایک دو لاکھ کو غربت کی سرحد سے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ اس ناجائز آمدنی سے، کھلی خرید و فروخت سے جو اسمبلیاں تشکیل پاتی ہیں۔ جس ایوانِ زیریں، ایوانِ بالا کی بنیاد حرام مال پر رکھی جاتی ہے وہ کہاں پائیدار ہوسکتا ہے؟ میں تو خود بھی کانپ رہا ہوں۔ مجھے یہ محلات، یہ اسمبلیاں، یہ سینیٹ سب لرزتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ اگر جمہوریت کے یہ قلعے واقعی سچائی اور اصولوں کی بنیاد پر کھڑے ہوتے تو ان کی سربراہی حاصل کرنے کے لئے سرمائے کا برہنہ رقص نہ ہوتا۔ اگر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ، حقیقت میں عوام کی خوشحالی کا نصب العین رکھتے تو کاروباری، لالچی، ان کے قریب بھی نہ پھٹکتے۔

کون محروموں کو یہ بھی سوچنے دیتا نہیں

آخر ان محرومیوں میں مبتلا کس نے کیا

کوئی حبیب جالب نہیں ہے جس کی آواز محروموں کو جھنجھوڑے کہ وہ اپنی طاقت پہچانیں۔ قبائلی غلامی سے نکلیں۔ مذہبی اجارہ داری سے آزادی حاصل کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔

جمہوریت ایک ٹکسال بن گئی ہے۔ مورخ ضرور لکھے گا کہ ملک میں جب یہ نام نہاد جمہوریت نہیں ہوتی ہے۔ توحالات کیسے مستحکم رہتے ہیں۔ کام میرٹ پر ہوتے ہیں۔ ان استحصالی انتخابیوں نے اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لئے اس جنگ کو جمہوریت اور آمریت کا نام دے دیا ہے۔ بڑے فخر سےیہ منتقم مزاج خود کہتے ہیں جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے۔انتقام مگر کس سے؟کراچی آرٹس کونسل میں ہم دم دیرینہ انوار احمد زئی کی بعد از رحلت شائع ہونے والی لازوال تصنیف’بادل جزیرے‘ کی رُونمائی میں مہتاب اکبر راشدی نے انوار صاحب کی یادوں میں یہ جملہ بڑے اعتماد سے ادا کیا کہ وہ معین الدین حیدر کی گورنری میں سیکرٹری تعلیم تھیں۔ جمہوریت نہیں تھی۔ کوئی وزیر نہیں تھا۔ نہ وزیر اعلیٰ۔ سارے کام میرٹ پر ہورہے تھے۔ یہ المیہ اور یہ حقیقت ہے۔ کاش اسے ہمارے بزعم خود رہنما سمجھ پائیں۔ پارلیمانی جمہوریت پاکستان کے عوام کے دن نہیں بدل سکتی۔ یہ جاگیرداری، سرداری اور مافیا کو مزید طاقت دے رہی ہے۔ کتاب کی تقریب رُونمائی میں مقررین اپنے اندر کے حیدر آباد سے مغلوب تھے۔ کئی عشروں پہلے کے حیدر آباد کے ادبی، علمی اور ثقافتی خزانوں کو یاد کررہے تھے۔ شفیق الرحمٰن پراچہ، مہتاب اکبر راشدی، رضوان صدیقی سب آج اپنے حیدر آباد کو اذن اظہار دے رہے تھے۔ اس شہر نے تعلیم فنون لطیفہ اور ادب کو کتنی نامور شخصیات دیں۔ حیدر آباد کی تربیت اور تہذیب سے آراستہ ہستیاں کراچی جب وفاقی دارُالحکومت تھا۔ جب صوبائی دارُالحکومت بنا اور اب تک کراچی کو سنبھالتی آرہی ہیں۔ ڈاکٹر مصطفیٰ خان، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر الیاس عشقی، پروفیسر قوی احمد، جوہر حسین،نایاب حسین ، محمود صدیقی، ادریس بختیار سب کا ذکر ہوا۔ حیدر آباد نے 1947میں پاکستان آنے والے بے گھروں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔ قاضی عبدالمجید عابد اور قاضی محمد اکبر کو کون بھول سکتا ہے۔

حیدر آباد نے پاکستان اور کراچی کو بہت کچھ دیا مگر حیدر آباد کو کیا ملا۔ یہی سوال، شیخو پورہ، قصور، لاہور سے کرتے ہیں۔ قلات، گوادر، لورا لائی کوئٹہ سے، مردان کوہاٹ پشاور سے اور پاکستان بنانے والے۔ اسمبلیوں کو اپنے ووٹوں سے آباد کرنے والے عوام بھی کہ ان کو کیا ملا؟

تازہ ترین