• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے انتخابی عمل کو مکمل ہوئے ایک ہفتہ گزرچکاہےلیکن بلوچستان میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان منظرعام پر آنےوالے تضادات نے کئی سوالات اُٹھا دیے ہیں، یوسف رضاگیلانی کی کامیابی اوروزیراعظم کے اعتمادکے ووٹ کے شورو ۲ہنگامے میں ان اختلافات کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوسکا،لیکن سوشل میڈیا پر موقع پرستی کی ساری جہتیں سامنے آچکی ہیں۔بظاہر چھوٹے نظرآنےوالے یہ اختلافات جہاں ان جماعتوں کے نظریاتی وعلاقائی تضادات کوآشکارکرتےہیں وہاں اس سے مستقبل میں عام انتخابات میں ان جماعتوں کےدرمیان ممکنہ سیاسی کشمکش کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ اظہاریکجہتی کی نمائش کرنے والے قدآورہنماایک آدھ سیٹ کیلئے تمام اصول قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔گویا پی ڈی ایم کی ہر جماعت جمہوریت وسول بالادستی سے زیادہ اپنی کامیابی کیلئے سرگرم ہے۔بلوچستان میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن، محمودخان اچکزئی اور اخترمینگل فعال تھے ،چنانچہ مولانا اور مینگل کےحصے میں تو حسب ِ منشاآیا لیکن محمود اچکزئی ایسے خالی ہاتھ رہے کہ سینیٹ میں مثالی کردار اداکرنے والےعثمان کاکڑ بھی سینیٹ سے باہر ہوگئے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعداس سلسلے میں مرکزی رہنمائوں کے اجلاس ،جس میں عثمان کاکڑ بھی موجود تھے،پارٹی کےمرکزی سیکرٹری اطلاعات رضا محمدرضا نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل بعض اسٹیبلشمنٹ نواز عناصر کی وجہ سے عثمان خان ہار گئے ،اُن کا کہنا تھا کہ سرکار کے اُمیدوار عبدالقادرکے 9ووٹ تھے ،لیکن اُنہیں گیارہ ووٹ ملے ،اضافی ملنے والے دو ووٹ جے یو آئی یا بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہوسکتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ’’ سرکاری اُمیدوار ہمیں انتخابات سے قبل کہتے تھےکہ ہم نے تمہارے دو ووٹ خرید لئے ہیں ، محمود خان اچکزئی خو د مولانا فضل الرحمٰن اور اخترمینگل سے ملے تھے،جنہوں نے عثمان خان کاکڑ کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ،تاہم انتخابات سے ایک دن قبل طے ہونے والے اجلاس سے دونوں جماعتیں غائب ہوگئیں ، نتائج کے بعد ظاہر ہوگیا کہ ہمیں نہ تو جے یو آئی نے ووٹ دیاہےاور نہ ہی بلوچستان نیشنل پارٹی نے ،ہمیں ملنے والا واحد ووٹ۲۸ ہماری اپنی جماعت کاتھا‘‘ ۔

یوں تو محموداچکزئی کی نظر عام انتخابات پر ہونے کی وجہ سے ہوسکتاہے کہ وہ ان اختلافات پر کوئی دو ٹوک موقف نہ اپنائیںلیکن اس سےاندازہ کیا جا سکتاہےکہ جمہوریت کی نام لیوا ان جماعتوں کا جب یہ حال ہے تو اقتدارکی بندربانٹ پر اُن کی سیاسی نفسانفسی کا کیا عالم ہوگا۔مشکل یہ بھی ہےکہ مسلم لیگ ن کو ملک گیر عوامی حمایت تو حاصل ہے لیکن وہ میدان میں کھڑے رہنے والے کارکنوں سے محروم ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ جے یوآئی کےناز نخرے اُٹھانے پر مجبورہے۔اور یہ امر پی ڈی ایم کی بعض جماعتوںکیلئے ناپسندیدہ ہے۔ انہی انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک انوکھا کھیل یہ بھی کھیلا کہ ان کے پہلے نمبر کے پختون اُمیدوار ساجد ترین ہار گئے لیکن دوسر ےنمبر کے بلوچ اُمیدوارمحمد قاسم رونجھو جیت گئے۔کامیاب ہونے والے مالدار اور زرداری صاحب کے کاروباری دوست بتائے جاتے ہیں جبکہ ساجدترین متوسط طبقےسے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں ، بلوچستان بار کے صدر رہ چکےہیں ۔ ملک بھر کے سیاسی حلقوں نےانہیں ٹکٹ دیے جانےکا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرداروں پر ایک سیاسی کارکن کو ترجیح دیکر سردار اخترمینگل نے نیپ کی یاد تازہ کردی ہے، تاہم بدقسمتی سے ڈرامائی انداز میں ساجدترین کو اپنی ہی جماعت کی جانب سے دیوار سے لگانے پر یہ تاثر زائل ہوگیا۔دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے چارووٹوں پر نہ صرف یہ کہ ایک نشست حاصل کرلی بلکہ سابق سینیٹرستارہ ایاز کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کی جانب سے ٹکٹ دینے کی راہ میں روڑے اٹکا کر ستارہ ایاز کو اس دوڑ ہی سے باہرکردیا،ستارہ ایاز اے این پی کی سینیٹر تھیں تاہم سینیٹ میں پارٹی مخالف موقف اپنانے پر اُنہیں اےاین پی سے نکال دیا گیا تھا۔ باپ نےاس غداری کا صلہ دینے کیلئے اُسے پختونخوا سے لاکر بلوچستان سے منتخب کرانےکا فیصلہ کیا تھا۔ اے این پی کے پی ڈی ایم سے ہٹ کر الیکشن لڑنے کو ہم پی ڈی ایم میں حالیہ اختلافات کے تناظر میں تو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اے این پی ابتداہی سے بلوچستان حکومت میں شامل ہے اور حالیہ انتخاب بھی اُس نے حکومتی اتحاد کے تحت لڑاہے،البتہ اس سے پی ڈی ایم کی جماعتوں کی ہم آہنگی پر سوالیہ نشان ضروراُٹھتے ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود اے این پی کے حلقوںمیں کہا جارہاہے کہ کم سیٹوں کے باوجود بلوچستان سےاربات عمر فاروق اور پختونخوا سے ہدایت اللہ خان کی جیت کی صورت میںاے این پی نظریاتی اور پارٹی کے دیرینہ ونظریاتی لوگوں کو آگے لانےمیں کامیاب ہوگئی ہے۔خلاصہ یہ ہےکہ ملک کی ہمیشہ یہ بدقسمتی رہی کہ جب جب ملک سول بالادستی کے قریب آپہنچتاہے یہ ابن الوقت سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو سستے داموں نیلام ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین