• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 مارچ ہر سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں انٹرنیشنل ویمن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ویمن مارچ کے ذریعے حقوقِ نسواں کے حوالے سے عامۃ الناس میں شعوری آگہی و بیداری پیدا کرنےکی کاوشیں کی جاتی ہیں۔ عورت مارچ میں جس طرح کے سلوگن یا مطالبات کئے جاتے ہیں۔ ان پر تحفظات بھی سامنے آتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے ایک سلوگن خاصا متنازع چلا آ رہا ہے، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ معترضین کی نظروں میں اس سے ایسی مادر پدر آزادی کامطالبہ جھلکتا ہے جو ہمارے اخلاقی ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی نہیں لہٰذا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہنے کی بجائے کہا جائے کہ میرا جسم خدا کی مرضی۔ہمارے سماج میں ایسے خواتین و حضرات بھی موجود ہیں جوخواتین مارچ یا ویلنٹائن ڈے کے بالمقابل یوم حیا مناتے ہیں جس کا انہیں بھی حق حاصل ہے۔ایک سوال اُن سے یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آخر خواتین کون سے حقوق اور آزادیاں چاہتی ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات نے جب تمام کے تمام حقوق صدیوں قبل انہیں تفویض کر دیے ہیں جو حرفِ آخر ہیں تو اب وہ مزید کیا چاہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ شکر و سپاس کے ساتھ ماں بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیتوں سے اپنے حقوق و فرائض ادا کریں۔ نت نئے مطالبات سے پرہیز کریں۔ ہمارے سماج میں خواتین کو بہت زیادہ عزت و احترام پہلے سے حاصل ہے۔ مغربی سماج نے تو ان پر دوہری ذمہ داریاں ڈالتے ہوئے ان کا بہت برے طریقے سے استحصال کیا ہے۔ اس کے برعکس خواتین مارچ کے حامیوں کا استدلال ہے کہ اگر ہم تاریخی حوالوں سے مختلف ادوار یا تہذیبوں کا جائزہ لیں تو جس قدر قدامت میں چلتے چلے جائیں گے خواتین کا استحصال بڑھتا ہوا دکھائی دے گا کیونکہ قدیم ادوار میں عزت یا برتری کا معیار جسمانی مضبوطی و طاقت تھی جو جتنا جنگجو یا لڑنے والاہوتا تھا اس کی قدرومنزلت اس تناسب سے ہوتی تھی۔

گزرتی صدیوں کے ساتھ جوں جوں انسانی شعور مجموعی طور پر اوپر اٹھا ہے ، انسانی حقوق کا ادراک بھی اس نسبت سے بڑھا ۔ ایک زمانہ تھا جب انسانوں کو لونڈیاں اور غلام بنانا اور ان کی خرید و فروخت کرنا غیر اخلاقی غیر انسانی یا کسی بھی درجے کی گھٹیا حرکت خیال نہیں کی جاتی تھی لیکن آج کا انسانی شعور کسی بھی صورت ایسے ظلم و استحصال کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ، یہی ارتقاء خواتین کے حقوق میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔آج کا انسانی شعور اور سماج اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ انسانوں کے درمیان جس طرح نسلی یا مذہبی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے گا اسی طرح جنسی یا صنفی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے مرداور عورت کے درمیان مساوی حیثیت و حقوق کی سوچ کو پوری دنیا میں منوایا جائے گا۔ مہذب دنیا اس نظریے کو بڑی حد تک منوا چکی ہے جبکہ بہت سے رجعت پسند روایتی معاشروں میں ہنوز مختلف حوالوں سے خواتین کا استحصال جاری و ساری ہے۔ایسی سوچ کے حاملین کو فکر و تدبر کے ساتھ غور کرنا چاہئے کہ کسی بھی انسان کا مرد یا عورت پیدا ہونا اس کی اپنی مرضی سے ممکن نہیں۔ اگر کوئی انسان مرد یا عورت سے ہٹ کر پیدا ہو گیا ہے جسے ہمارے سماج میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے تو اس میں بھی اس بیچارے کا کیا قصور ہے، جس پر انسانی سماج اسے دھتکارے یا کمتر خیال کرے؟ انسان ہونے کے ناتے تمام انسان بلا کسی صنفی امتیاز کے برابر ہیں، سب مساوی حقوق کے ساتھ انسانی وقارو احترام کے حقدار ہیں، لہٰذا انہیں مساوی حقوق ملنا انسانیت کا سب سے بڑا فطری تقاضا ہے۔قانون وراثت ہو یا انسانی زندگی کے ایک سو ایک معاملات و تنازعات کسی بھی انسان کا کسی بھی حوالے سے استحصال ظلم ونا انصافی قرار پائے گا۔ سماجی یا اخلاقی اقدار صدیوں سے جو بھی چلی آ رہی ہے اگر وہ ظلم و جبر اور بے انصافی و استحصال پر استوار ختم کرنا ہو گا۔ مہذب سماج کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانی مساوات کے برعکس بنائے گئے تمام قوانین و ضوابط کا قلع قمع کرتے ہوئے از سر نوع ایسی قانون سازی کرے جس میں نسلی و مذہبی امتیاز کی طرح جنسی و صنفی امتیاز کا بھی مکمل خاتمہ کردیا جائے۔ آپ کے عقائدو نظریات آپ کا ذاتی معاملہ ہیں چنانچہ جس طرح ہر انسان کی سوچ پر اس کااپنا حق ہے اسی طرح اس کے جسم و جان پر بھی اسی کا حق ہے جو اُسے قدرت نے عطا کیا ہے۔

تازہ ترین