• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک خود کو پہچان نہیں پائے ۔ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن کمزور قیادت کے باعث ایک پراعتماد قوم نہیں بن پائے ۔ یاد کیجئے 2009ء کے موسم بہار میں پینٹاگون کے ایک فوجی مشیر ڈیوڈکیلکولن نے واشنگٹن پوسٹ سے کہا تھا کہ ستمبر 2009ء تک پاکستان ٹوٹ سکتا ہے اور اسلام آباد پر طالبان کا قبضہ ہو جائے گا ۔ ستمبر 2009ء آیا اور گزر گیا۔ پاکستان اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی سے کوئی لاکھ اختلاف کرے لیکن ان دونوں جماعتوں نے کم از کم سوات میں حکومت پاکستان کی رٹ قائم کی ۔ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو لاکھوں مرد و خواتین اور بچوں نے ملاکنڈ سے مردان کی طرف ہجرت کی ۔ بہت سے عالمی مبصرین کا خیال تھا کہ سخت گرمی کے موسم میں ان لاکھوں مہاجرین کو سنبھالنا بہت مشکل ہو گا لیکن سوات میں فوجی آپریشن ختم ہونے کے چند ماہ کے اندر اندر یہ لاکھوں مہاجرین واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر 2010ء میں ایک بڑا سیلاب آیا جس میں آدھا پاکستان ڈوب گیا۔ اس سیلاب سے نمٹنا بہت مشکل تھا ۔مرکزی و صوبائی حکومتیں اس سیلاب کے سامنے بے بس نظر آتی تھیں لیکن پاکستان کے بہادر عوام نے اس سیلاب کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ کراچی اور لاہور سمیت دیگر علاقوں کے امیر و غریب ان متاثرین سیلاب کے مددگار بنے ۔ 2011ء میں دوبارہ سیلاب آیا ان سیلابوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا لیکن یہ سیلاب ہمیں غرق کرنے میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ ان سیلابوں نے ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے کا موقع دیا ۔2012ء میں بہت سے بڑے تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں نے نجی محفلوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ الیکشن نہیں ہو گا۔ میں نے کئی بڑے دفاعی ماہرین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طالبان کے حملوں اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کے باعث الیکشن نہیں ہو سکتے اس لئے جمہوریت اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا ۔ایک طرف طالبان جمہوریت کو کفر قرار دے رہے تھے دوسری طرف ہمارے دفاعی ماہرین جمہوریت کی بجائے پاکستان کو بچانے کے مشورے دے رہے تھے لیکن ایک دفعہ پھر ہماری کمزور سیاسی قیادت نے ہر قیمت پر الیکشن منعقد کرانے کا فیصلہ کیا ۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے اس الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن الیکشن میں 50فیصد سے زیادہ ٹرن آؤٹ انکی شکست تھا ۔ عوام جیت گئے طالبان ہار گئے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک فیئر اینڈ فری الیکشن نہیں کرا سکا لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے داغدار انتخابی نتائج کو تسلیم کرکے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا کیونکہ اصل کامیابی یہ نہ تھی کہ کون سی جماعت جیتی کون سی ہاری اصل کامیابی یہ تھی کہ ساڑھے چار کروڑ ووٹروں نے بندوق اور بموں کے خوف کو اپنے جوتے کی نوک پر لکھا ۔ انتخابی نتائج کے بعد بہت سے کامیاب آزاد امیدوار دھڑا دھڑ مسلم لیگ (ن)میں شرکت کر رہے تھے ۔ ایک آزاد امیدوار کو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوتا دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ موصوف کسی زمانے میں جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ وزراء میں سے ایک تھے ۔مشرف پر زوال آیا تو مسلم لیگ (ق)سے بھاگ نکلے۔ الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک مجھے کہہ رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہوگا ۔ نواز شریف کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ نواز شریف کا سیاست میں کوئی مستقبل نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے غلطی یہ کی کہ ان صاحب کے مقابلے پر ایک بزرگ لوٹے کو کھڑا کر دیا۔ عوام کو بڑے لوٹے اور چھوٹے لوٹے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا لہٰذا عوام نے چھوٹے لوٹے کو چھوٹی برائی سمجھ کر جتوا دیا لیکن عوام نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ ان کا منتخب نمائندہ مسلم لیگ (ن)میں چلا جائے گا ۔ جب ان صاحب نے مسلم لیگ (ن)میں شمولیت اختیار کی تو مجھے ان کے وہ دعوے یاد آئے کہ الیکشن نہیں ہو گا، نواز شریف کا کوئی مستقبل نہیں۔ قصور ان صاحب کا نہیں بلکہ انکے پیروں کا ہے ۔ ہمارے سیاست دانوں کو چاہئے کہ ایسے پیروں کو سننا چھوڑ دیں جن کی کوئی پشین گوئی صحیح ثابت نہیں ہوئی ۔ میں لاہور کے ایک پیر صاحب کو جانتا ہوں ،فرمایا کرتے تھے کہ میاں برادران کا کوئی مستقبل نہیں ۔ایک اور پیر صاحب کہتے تھے کہ آسمانوں پر فیصلہ ہو چکا وزیر اعظم عمران خان ہو گا ۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ یہ سب پیر غلط تھے ۔اصل پیر اس ملک کے عوام ہیں عوام کے فیصلے صحیح ثابت ہوئے اور سیاست دانوں کو گمراہ کرنے والے پیر غلط نکلے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت امریکہ کے دفاعی ماہر ڈیوڈ کیلکولن کے دعوؤں کو غلط ثابت کر سکتے ہیں، اگر ہم طالبان کی دہشت کو مسترد کر سکتے ہیں، زلزلوں اور سیلابوں میں سے بھی بچ نکل سکتے ہیں تو ڈرون حملے کیوں نہیں روک سکتے ؟ بجلی کے بحران پر قابو کیوں نہیں پا سکتے ؟ بلوچستان میں پھیلی بے چینی ختم کیوں نہیں کر سکتے ؟ جی ہاں ! ہم یہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں خود کو پہچاننا ہو گا ۔ ہمیں اپنے آپ پر اعتماد کرنا ہو گا ۔ انتخابات کے فوراً بعد امریکہ نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے ذریعہ پیغام دیدیا ہے کہ اوباما حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی ۔ اوباما کی پالیسی وہی ہے جو بش کی تھی ۔ طالبان کمانڈر ولی الرحمان محسود حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رابطے میں تھے ۔ امریکہ نے ڈرون حملے میں انہیں ختم کر دیا جسکے بعد طالبان نے حکومت کیساتھ مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی۔ طالبان نے سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیئے ہیں ۔ اب ہمیں امریکہ کو بھی روکنا ہے اور طالبان کو بھی روکنا ہے ۔ امریکہ کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر ریاست کا کنٹرول قائم کریں ۔امریکہ کو یہ جواز ہی فراہم نہ کریں کہ وہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے ۔ اس مقصد کیلئے تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی ہو گی۔طالبان نے مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی تو کوئی بات نہیں ۔ اب نئی حکومت مذاکرات کیلئے متفقہ قومی پالیسی کا اعلان کرے ۔ طالبان کو یہ پالیسی قبول ہے تو ٹھیک بصورت دیگر قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کی جائے ۔
آخر میں عرض ہے کہ بجلی کا بحران اتنا بڑا نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے ۔ نئی حکومت صرف بجلی چوری کو روک لے اور بجلی کے بلوں کی وصولی کو ممکن بنا لے تو آدھا بحران ختم ہو جائے گا ۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ بجلی کے بحران کا تعلق کرپشن سے ہے ۔ کرپشن ختم کرنے کیلئے میرٹ پر فیصلے کرنے ہونگے ۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی لاہور سے آ گئے تو باقی شہروں کا کیا ہو گا ؟ فیصلے ذات، برادری، علاقے اور صوبے کی بنیاد پر نہیں صرف اور صرف میرٹ پر کئے جائیں ۔ جب واپڈا، پی آئی اے، ریلویز، ایف بی آر، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، اوگرا، پمرا، پی ٹی وی اور وزارت دفاع جیسے اداروں میں من پسند افراد کی بجائے صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دی جائے گی تو بڑے بڑے مسائل خودبخود چھوٹے ہو جائیں گے ۔ جب مسائل حل ہونے لگے اور معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی تو ریاست کے اندر موجود چھوٹی چھوٹی ریاستیں پانی کے بلبلوں کی طرح تحلیل ہو جائیں گی۔ انشااللہ پاکستانی قوم ان مسائل کو ضرور شکست دیگی ۔ ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے ۔خود کو پہچانو اور خود پر اعتماد کرنا سیکھو!
تازہ ترین