• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانی رفاقتوں میں بندھے میں اور میرا ساتھی شہر کی ایک ماڈرن بستی میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ یہ امیر ترین لوگوں کی بستی تھی اور یہاں رہنے والے تمام آسائشوں سے بہرہ ور تھے، ہمارے قریب سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی چمکیلی کارگزر جاتی جس میں خوشنما چہرے خوشنما لبادوں میں ملبوس بیٹھے نظر آتے، سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے بنگلے ایستادہ تھے، جن کے وسیع و عریض لان میں ادوے ادوے، نیلے نیلے اور پیلے پیرہنسوں والے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ یہ باہر کے خیرہ کن منظر تھے، جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ سکتی تھیں، ان بنگلوں کے اندر کی دنیا ہم سے اوجھل تھی۔
چلتے چلتے غیر ارادی طور پر میں اور میرا ساتھی سڑک کے دائیں ہاتھ ایک ڈھلوان میں اتر گئے اور ہمیں یوں لگا جیسے الف لیلیٰ کے ابو الحسن کو عالیشان محل اور حسین کنیزوں کے جھرمٹ سے اٹھا کر واپس اسی ماحول میں بھیج دیا گیا ہے، جہاں سے اسے لایا گیا تھا۔ ہمارے سامنے ایک کچی سی گلی تھی جس کی نکڑ پر چائے کی دکان تھی جسے ”پردیسی ہوٹل“ کا نام دیا گیا تھا۔ بائیں جانب ایک ٹیلے پر کسی بزرگ کا مزار تھا اور یہاں سبز علم لہرا رہے تھے۔ دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور یہاں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچے مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔ یہ گلی ذرا آگے چل کر چوڑی ہو گئی تھی اور اس کے درمیان میں کنواں تھا، ایک عور ت کنویں میں سے بوکے کے ذریعے پانی نکال رہی تھی اور دوسری عورت اپنی باری کے انتظار میں بالٹی پاؤں میں رکھے منڈیر پر بیٹھی تھی۔ سامنے والے مزار کے صحن میں ایک سفید ریش بزرگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے اور سینکڑوں کبوتر ان کے اردگرد جمع تھے، مزار کے ذرا ادھر برگد کا ایک پرانا درخت اپنی جڑیں ز مین کے اندر اور باہر پھیلائے کھڑا تھا، میں اور میرا ساتھی چلتے چلتے تھک گئے تھے ہم نے برگد کے نیچے رومال بچھایا اور سستانے کے لئے بیٹھ گئے۔
”تم چائے پیئوں گے؟“
میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا جس کے چہرے پر تھکن کے آثار کچھ زیادہ نمایاں تھے، وہ میرے لئے ان راستوں پر چل نکلا تھا ورنہ وہ ایسی مسافتوں کا عادی نہ تھا۔
”ہاں“ اس نے سر کی ہلکی سی جنبش سے جواب دیا۔ میں اٹھ کر پردیسی ہوٹل کی طرف گیا اور چائے کے دو کپ بنوا کر لے آیا۔ دکان کے مالک نے اپنے دوسرے گاہکوں کے برعکس ہمارے صاف ستھرے کپڑے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ الماری سے دو ایسے کپ نکلوائے تھے جن کے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ انہیں دھویا بھی بڑے اہتمام سے تھا، میں نے برگد کے نیچے پہنچ کر پلیٹ میں گری ہوئی چائے زمین پر انڈیلی اور پھر ایک کپ اپنے ساتھی کو تھما دیا۔
”یہاں کتنا سکون ہے“۔
میرے ساتھی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا! ”تم دیکھ رہے ہو کہ پاس سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں میں کتنی پاکیزگی ہے اور وہ اس طرح سلام کر کے گزر رہے ہیں جیسے برسوں سے ہمارے آشنا ہوں“۔
”ہاں میں دیکھ رہا ہوں بائیں جانب اس بوڑھی عورت کو دیکھو“! میں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں ایک ضعیف عورت پاؤں کے بل بیٹھی پانی جیسے شوربے میں روٹی بھگو بھگو کر کھا رہی تھی، اس کے کپڑے تار تار تھے۔
”چچ چچ چچ“۔
میرے ساتھی نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بے قرار ہو رہا تھا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس کے لئے کیا کروں؟ میری جیپ میں کچھ کرنسی نوٹ تھے، میں اٹھا اور پانچ سو روپے کا ایک نوٹ اس بوڑھی عورت کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اس نے خوشی سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ یہ نوٹ ٹٹول کر دیکھا اور پھر زیادہ غور سے اسے دیکھنے لگی۔
اس کے بعد اس کے دو منٹ دعاؤں میں صرف ہو گئے اور پھر اس نے یہ نوٹ قمیض کے دامن میں باندھتے ہوئے پوچھا ”بیٹے! یہ کتنے کا نوٹ ہے!“
مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرا کلیجہ مسل دیا ہو اور میں اس کی بات کا جواب دیئے بغیر واپس برگد کی چھاؤں میں آ کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم دوبارہ چندگز دور واقع جدید طرز کی بستی میں واپس چلے گئے۔ جہاں سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے بنگلے ایستادہ تھے جن کے وسیع و عریض لان میں رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
دائیں جانب واقع ایک سنیک بار کے باہر نئے ماڈل کی کاریں کھڑی تھیں، جن میں بیٹھے ہوئے خوش لباس اور خوش نما چہرے آئس کریم کھا رہے تھے، وہ بستی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی جہاں ایک مسجد میں بچے چہک چہک کر قرآن مجید پڑھ رہے تھے، جہاں مزار پر سبز پرچم لہرا رہے تھے اور جس کے صحن میں ایک بزرگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے جہاں عورتیں کنویں میں سے پانی نکال رہی تھیں جہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ضعیف عورت پانی ایسے شوربے میں باسی روٹی کے لقمے بھگو کر کھا رہی تھیں اور…
جہاں برگد کا ایک درخت تھا جس کے سائے تلے ”عجوبہ“ بستیاں دیکھنے کے لئے آنے والے ہم تماشبین لوگ بیٹھتے ہیں اور کچھ دیر یہ ”تماشا“ دیکھنے کے بعد اپنی روشن بستیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
اور اب آخر میں کراچی میں مقیم جاوید صبا کی ایک خوبصورت غزل:

پھول میں پھول، ستاروں میں ستارے ہوئے لوگ
تیرے ٹھکرائے ہوئے، میرے پکارے ہوئے لوگ
ہم میں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے پھر بھی
کوئی تو بات ہے ایسی کے ہمارے ہوئے لوگ
جس سے ملتے ہیں، اسے اپنا بنا لیتے ہیں لوگ
چند لمحے تیری محبت میں گزارے ہوئے لوگ
نشہ ٹوٹے گا تو گھبرا کے پلٹ آئیں گے
وہ بھی اپنے ہیں، جواب غیر کو پیارے ہوئے لوگ
زخم پروردہ ہے ناکامی دل کا انجام
تجھ کو یہ سوچ کے جیتے نہیں ہارے ہوئے لوگ
جس سے کترا کے بکھرتے ہی چلے جاتے تھے
جمع آخر اسی دریا کے کنارے ہوئے لوگ
آ نکلتے ہیں تیرے شہر کی رونق کے لئے
گاہے گاہے تری نظروں سے اتارے ہوئے لوگ
ہم تو سمجھے تھے کہ اک ہم ہی چمک اٹھیں گے
چاند نکلا تو لب بام ستارے ہوئے لوگ
بے وفائی کی بھی ایک حد ہے مری جان صبا
تم کسی کے نہ ہوئے اور تمہارے ہوئے لوگ
تازہ ترین