• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کے شاہی خاندان پر ایک بار پھر کڑا وقت آن پڑا ہے۔عام طور پر اس خاندان میں جو بہوئیں یا داماد آتے تھے ان کا تعلق شاہی خاندانوں سے یا امرااور رؤسا کے گھرانوں سے ہوا کرتا ہے۔

مگر اس بار عجب اتفاق ہوا۔ ولی عہد شہزادہ چارلس اور شہزادی ڈیانا کا چھوٹا بیٹا شہزادہ ہیری ایک عام گھرانے کی لڑکی کو بیاہ کر لے آیا۔ عام گھرانہ بھی ایسا کہ لڑکی کا باپ گورا لیکن ماں کالی ہے۔ہر چند کہ لڑکی دیکھنے میں بالکل سفید فام ہے مگراس کا خون تو دوغلا ہے۔

یہ ماننا پڑے گا کہ شاہی خاندان نے ملی جلی نسل کی بہو کو قبول کیا۔ دھوم دھام سے شادی ہوئی اور خیرسے بہو، جس کا نام میگن مرکل ہے، امید سے ہوئی اور ڈاکٹروں نے پیشگی بتا دیا کہ بیٹا پیدا ہوگا۔بظاہر دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے لیکن اندرونِ خانہ حالات دشوار ہوتے جارہے تھے۔جیسے بھی بنا حالات پر پردہ پڑا رہا۔ میگن کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، گورا چٹّا۔ملکہ او رشاہی خاندان کے دوسرے افراد نے نئے شہزادے کا خیر مقدم کیا لیکن اندر ہی اندر کھچڑی پکتی رہی۔ شہزادہ ہیری کچھ بھی ہو، شہزادی ڈیانا کا بیٹا تھا۔ اس نے اور میگن نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ قصرِ سلطانی سے دور، امریکہ جاکر اپنی زندگی اپنے طور پر گزاریں گے۔اس پر سننے میں آیا کہ اس صورت میں شہزادہ ہیری اور نو مولود بیٹے کا وارثِ تخت رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ابھی یہ بحث چل رہی تھی کہ ایک امریکی ٹیلی وژن چینل نے میگن کا انٹرویو ریکارڈ کیا جس کے آخر میں شہزادہ ہیری بھی شامل ہوگیا۔انٹرویو کیا تھا ، ایک تہلکہ تھا۔ اس میں میگن نے کھل کر باتیں کیں اور دوتین باتوں پر ساری دنیا چونک اٹھی۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے اندازِ فکر اور انسانی رویے کے بارے میں ہر طرف بحث چھڑ گئی۔ میگن نے پہلے تو یہ کہا کہ لندن کی شاہی زندگی میں گھٹن ہی گھٹن تھی۔ میں تنہائی کا شکار ہوئی اور میرے گرد ماحول کچھ ایسا ہوگیا کہ کئی بار جی چاہا کہ زندہ نہ رہوں۔

ظاہر ہے اس بات پر ہر ایک چونکا۔ جس دوسری بات پر دنیا کے کان کھڑے ہوئے وہ اس وقت ہوئی جب میگن نے بتایا کہ جن دنوں میں امید سے تھی ، شاہی خاندان کے ایک فرد کو یہ فکر ستانے لگی کہ میرا بچہ گورا ہوگا یا کالا۔ میگن نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بات کس نے کہی تھی۔

جس رات یہ انٹرویو نشر ہوادنیا میںکروڑوں افراد نے اسے دیکھا اور اس پر ایک عالمی بحث چھڑی جو کئی روز گزر جانے کے باوجود جاری ہے اور اس کے نتیجے میں ہزار طر ح کے قصے باہر آنے لگے۔کئی روز بعد شاہی محل سے چند لفظوں کا بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ کچھ بھی ہو، میگن اوراس کا بیٹا شاہی گھرانے کے فرد رہیں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا۔

اس سارے قصے میں دو چار ایسی باتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جو پہلے بھی زیر بحث آتی رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ برطانیہ والوں کا اپنے شاہی خاندان سے غیر معمولی لگاؤ ہے حالاں کہ بادشاہ وقت کا حاکم وقت بھی ہونا اب پرانی بات ہوئی۔ ملکہ کو حکمرانوں جیسا وہ قدیم مقام حاصل نہیں۔ وہ علامتی فرماں روا ہیں ، وزیر اعظم انہیں ملک کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ سال میں ایک بار وہ جاکر پارلیمان کے نئے اجلاس کا افتتاح کرتی ہیں اور اس موقع پر جو تقریر کرتی ہیں وہ بھی حکومت کی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔

برطانیہ والے ملکہ کو عام نہیں بہت خاص شخصیت تصور کرتے ہیں اور ان کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں پھر بھی کبھی کبھی یہ بحث چھڑجاتی ہے کہ بادشاہت ایک ڈھونگ ہے جس کو برقرار رکھنے پر بھاری خرچ آتا ہے۔ان کے سارے محل اور شاہی ٹھکانے سجا دھجا کر رکھے جاتے ہیں اور ان کی شاندار گھوڑا گاڑیاں اور باوردی محافظ صرف دکھاوے کے ہیں۔

یہ سب نہ ہوتو حکومت کا کتنا خرچ بچے گا۔ برطانیہ میں جب بھی حکومت کے خرچ کی بات ہوتی ہے، ا س کوٹیکس ادا کرنے والوں کے کھاتے میں ضرور ڈالا جاتا ہے۔ حالاں کہ ملکہ بچاری سادہ زندگی گزارتی ہیں، سن1952 سے آج تک تخت نشین ہیں اور اپنے پورے کنبے کی دیکھ بھال کرتی ہیں ۔بلکہ ان کی بہو میگن نے اپنے انٹرویو میں ملکہ کے رویے او ر طرز عمل کی بہت تعریف کی ۔ وہی رویہ شاہی خاندان کے سرکاری بیان میں بھی نمایاں تھا۔

شاہی خاندان میں ہر نئی شادی پر کوئی نہ کوئی بحث ضرور چھڑتی ہے۔ محل میں کئی ایسی لڑکیاں بہو بن کر آچکی ہیں جن کی رگوں میں شاہی خون نہیں دوڑ رہا۔کسی پر کوئی بڑ ا تنازعہ کھڑا نہیں ہوا البتہ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کے بعد بڑے پیچیدہ حالات ہوگئے تھے جب یہ نئی بہو برطانیہ کے عوام کی چہیتی بن گئی اور اس کی شخصیت کا جادو ہر ایک پر چل رہا تھا، اتنا کہ شوہر یعنی شہزادہ چارلس کو جذباتی مسئلے ستانے لگے۔

ڈیانا نمایاں ہو گئی ،شہزادہ تاریکی میں جانے لگا لیکن بڑا غضب اس وقت ہوا جب ڈیانا ٹریفک کے ایک حادثے میں ہلا ک ہوگئی اور کہیں سے یہ خبر نکلی کہ وہ حادثہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ کسی سازش کے نتیجے میں ہوا ہے اور یہ کہ شہزادی کو ہلاک کیا گیا ہے۔ وہ بحث بہت عرصے چلی اور اس دوران شہزادہ چارلس اپنی نئی دلہن لے آئے اور خدا خدا کرکے یہ غبار بیٹھا۔

ملکہ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہومیو پیتھک علاج کراتی ہیں، خیر سے تندرست اور توانا ہیں، اس قدر کہ ولی عہد شہزادہ چارلس اپنی باری کے انتظار میں بوڑھا ہو چلا ہے اور ملکہ کا پرچم ہے کہ بدستور لہرائے جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ہم ماشاء ﷲ کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ نہ بھولئے کہ ہم دولتِ مشترکہ میں شامل ہیں اور ملکہ ایلزبتھ ثانی ہماری بھی ملکہ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین