• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیو ایم کے نئے لیڈر جناب اظہار الحسن مجھ سے کچھ زیادہ ہی ناراض لگتے ہیں۔ ایک ٹاک شو میں بڑے مودبانہ الفاظ میں گزارش کی کہ میں ان کی پارٹی کے بارے میں ایک مثبت یعنی Positive کالم ضرور لکھوں کیونکہ ان کے مطابق میں ہمیشہ منفی پہلو پر ہی زور دیتا ہوں اور ان کی نظر سے میرا کوئی مثبت کالم نہیں گزرا۔ یہ گزارش انہوں نے ٹاک شو کے وقفے کے دوران کی جبکہ چند ہی سیکنڈ پہلے میں متحدہ پر اپنا بے لاگ تبصرہ کررہا تھا اور وہ اپنی پارٹی کا بڑے موثر انداز سے دفاع کررہے تھے۔ مگر جیسے ہی وقفہ ختم ہوا تو خاتون اینکر نے یہ اعلان کردیا کہ میرا اور اظہار صاحب کا معاہدہ ہوگیا ہے اور میں نے متحدہ کے بارے میں ایک بہت ہی مثبت کالم لکھنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ پروگرام کے بعد سوچتا رہا کہ ایسا کیوں ہے کہ اگر بغیر کسی لالچ اور ڈر کے تبصرہ کیا جائے تو وہ ہمیشہ منفی ہی کیوں سمجھا جاتا ہے۔ شاید ہمارے سیاسی اور میڈیا کے کلچر میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی کہ سچ کو سن کر سراہا جائے۔ کافی دیر تک میں سوچتا رہا کہ کیا لکھوں کیونکہ متحدہ کے بارے میں تو میں اتنا جانتا ہوں کہ کتاب بھی لکھوں تو شاید پوری بات نہ کہہ سکوں اور چھپنے سے پہلے اگر کسی متحدہ کے رکن نے وہ کتاب پڑھ لی یا مسودہ دیکھ لیا تو کہیں میری شامت ہی نہ آجائے۔ یہ دعویٰ میں اس لئے کرسکتا ہوں کہ میں نے متحدہ کو بنتے، بڑھتے اور ایک نازک کونپل سے قد آور درخت بنتے دیکھا ہے۔ لیکن ایک واقعہ میں ضرور لکھوں گا اور وہ شاید کچھ پیغام دے سکے۔ 80 کی دہائی ابھی شروع ہی ہوئی تھی اور میں بیرون ملک سے کوئی آٹھ سال بعد واپس ملک آیا تھا کہ یہیں اپنا کیرئیر آگے بڑھاؤں اور خاص کر اپنے تین بیٹوں کی پڑھائی پر توجہ دوں۔ میں اور میری مسز جو ایک ڈاکٹر ہیں ایک عرب ملک میں جاب کررہے تھے اور وہاں بچوں کیلئے پڑھائی کا صحیح انتظام نہیں تھا سو ہم واپس آگئے۔ بیگم نے اپنا چھوٹا سا خواتین کا نرسنگ ہوم ایک ایسے علاقے میں کھولا جہاں غریب بہت تھے اور سہولتیں کم۔ وہ علاقہ کچھ سال میں متحدہ کا ایک مضبوط گڑھ بن گیا۔ میں نے کراچی کے ایک اخبار کے لئے رپورٹنگ کرنا شروع کردی اور یوں کام چلنا شروع ہوگیا۔ 85-86 کے لگ بھگ کراچی میں ایک بس کا حادثہ ہوا جس میں ایک مہاجر لڑکی مرگئی اور ہر جگہ بس والوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ زیادہ تر بسیں پٹھان چلاتے ہیں سو مہاجر پٹھان لڑائیاں شروع ہوگئیں اور ایک دوسرے کے علاقوں میں حملے کرنا اور املاک کو آگ لگانا یا تباہ کرنا ایک معمول بن گیا۔ جہاں میری مسز کا میٹرنٹی ہوم تھا وہ متحدہ کا علاقہ تھا اور کوئی آدھا میل دور پٹھانوں کی بستی تھی۔ اب ہوا یوں کہ کیونکہ میں اور میری بیگم پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور وہیں پلے بڑھے تو پشتو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ میری والدہ اردو بولتی تھیں تو اردو بھی اسی روانی سے بولتے ہیں۔ اسپتال چند سالوں کے بعد یوں مشہور ہوگیا کہ یہ پٹھان ڈاکٹر کا ہے اور وہاں افغان اور صوبہ سرحد کی خواتین دور دور سے آنے لگیں۔ اکثر مرد حضرات باہر ٹیکسی یا گاڑی میں انتظار کرتے اور خواتین علاج کراتیں۔ مہاجر پٹھان لڑائی جب زیادہ بڑھ گئی تو محلے والوں نے یہ زیادہ نوٹس کرنا شروع کیا کہ پٹھان یہاں زیادہ آتے ہیں پھر ایک دن ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ ایم کیو ایم کی علاقے کی قیادت مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں ایک اخبار نویس ہونے کے ناتے ہر جگہ نئی معلومات کی تلاش میں رہتا ہوں سو ان سے ملنے گیا۔ بتایا گیا بلکہ تفتیش کی طرز پر سوالات ہوئے کہ ہم لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ میں نے حسب صورت جوابات دیئے۔ کچھ دن بعد ایک صاحب ملے اور کہنے لگے کہ آپ کی وجہ سے آپ کا اسپتال بچ گیا۔ پوچھا کیسے تو معلوم ہوا کہ چند متحدہ کے جانباز اس چکر میں تھے کہ اسپتال کو آگ لگا دی جائے کیونکہ پٹھان مہاجروں کے علاقوں میں گھس کر گھر، دکانیں اور گاڑیاں جلا رہے تھے اور یہی کام مہاجر لڑکے پٹھانوں کے ساتھ کررہے تھے۔ تو میں نے پوچھا کیا ہوا کس نے بچایا جواب ملا آپ کی مسز کیونکہ پٹھان ہیں تو اس لئے یہ سوچا گیا کہ آگ لگا دی جائے مگر آپ خود کیونکہ شکل سے اور بات چیت سے مہاجر نظر آتے ہیں اس لئے کچھ فیصلہ کرنے میں دشواری ہونے لگی اور آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ ابھی یہ کام نہ کیا جائے۔ متحدہ جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ تھی اس کی قیادت کو خراج تحسین ضرور پیش کروں گا کہ جان بخش دی ورنہ نہ معلوم کتنا اور کیا جان و مال کا نقصان ہوجاتا۔ اس واقعہ کے تقریباً دوسال بعد ہم لوگ وہ علاقہ ہی چھوڑ گئے۔ اس ایک واقعے سے یہ تو واضح تب ہی ہو گیا تھا کہ ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ کس طرح کا ہے اور وہ ہر کام کس طرح پلان کرتی ہے اور کس طرح ہر ایکشن کی اجازت لی جاتی ہے یا دی جاتی ہے۔ ہر طرح سے تحقیق کرلی جاتی ہے اور اگر اس تحقیق میں کوئی شک و شبہ رہ جائے تو اس کام کو روک دیا جاتا ہے جیسے ہمارے اسپتال پر حملے کے پلان کو بر وقت روک دیا گیا۔ مگر یہ تو میں نے خود دیکھا کہ پٹھانوں کے علاقوں میں اور جو پٹھان مہاجر علاقوں میں رہتے تھے ان کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا۔ جہاں ایم کیو ایم اپنے دفاع میں دوسروں کو نشانہ بناتی تھی وہیں وہ اپنے لوگوں کو تحفظ بھی دیتی تھی۔ مگر اب یہ سب باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ متحدہ کو ہر صوبے اور علاقے میں اپنا پیغام پہنچانے کیلئے ایک مکمل سیاسی ڈھانچہ اور کلچر اپنانا ہوگا۔ بہتر تو یہ ہے کہ الطاف بھائی اب لندن کو خیر باد کہہ کر واپس وطن آجائیں کیو نکہ یہاں ان کے اتنے چاہنے والے ہیں کہ ان کو کوئی بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ویسے بھی پاکستان میں جتنی عزت اور شہرت انہیں ملی ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔ اور اگر اپنی حفاظت اور سیکورٹی کی فکر ہو تو پاکستان سے اچھی جگہ کونسی ہوگی یہاں تو یہ حال ہے کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے دہشت گرد اور اسامہ بن لادن جیسے لوگ اس طرح چھپ کر غائب ہو جاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ دنیا کے بڑے بڑے Wanted لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہیں چاہے وہ بھارتی ہوں، افغان ہوں، ازبک ہوں یا یمنی تو پھر الطاف بھائی کے لئے یہ زمین کیوں تنگ ہے اور کس نے کررکھی ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے لیڈر ملک بدر یا کئے گئے یا خود رہے مگر لوٹ کر واپس آئے اور پھر یہیں اپنا کام آگے بڑھایا۔ بے نظیر کی مثال ہو یا نواز شریف کی یا زرداری یا جنرل مشرف واپس آ کر ایک محفوظ طریقے سے رہنے میں کیا دشواری ہے۔ بے نظیر تو بہت ہی بہادر تھیں اور اس کی سزا جان سے دینی پڑی لیکن باقی سب تو ملک میں رہ بھی رہے ہیں اور سیاست بھی کررہے ہیں اور اپنی جان کی حفاظت بھی۔ تھوڑا بہت خطرہ تو مول لینا پڑتا ہے مگر اس کا سیاسی اور عوامی حلقوں میں جو پھل ملے گا وہ بے پناہ ہے۔ متحدہ اب بڑی ہو کر ایک ملک گیر قوت بن گئی ہے اور اس کو الطاف بھائی کی قیادت کی فوری ضرورت ہے ان کے پیچھے کوئی NAB نہیں لگے گی۔
تازہ ترین