• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملکی حالات میں بڑےبڑے نشیب و فراز آتے رہے ہیں اور آج بھی ہمیں اُن کا سامنا ہے۔ کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی کاوشوں سے ہمارے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، اربوں کا جاری خسارہ ختم ہو گیا ہے اور پاکستان میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ خوشخبری بھی سننے میں آ رہی ہے کہ تارکینِ وطن ہر ماہ دو ارب ڈالر سے زائد ارسال کر رہے ہیں اور ہماری برآمدات میں اضافہ بھی حوصلہ افزا ہے۔ اسی طرح تعمیراتی شعبے میں بھی بہت رونق ہے اور درآمدات پر پابندی لگ جانے سے چینی برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ مقامی صنعتوں کے قیام اور فروغ میں پاکستانی سرمایہ کار بڑی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ہمارے وزیرِخزانہ عبدالحفیظ شیخ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے دو روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں یہ مژدہ سنایا کہ پاکستان کا اسٹیٹ بینک آئندہ ایک آزاد اور خودمختار اِدارے کے طور پر کام کرے گا۔

ایک طرف انتہائی خوش نما اعلانات ہیں اور دوسری طرف عوام کے لیے جینا محال ہو گیا ہے۔ مہنگائی اِس قدر زیادہ ہے کہ ہمارے درویش صفت وزیرِاعظم بھی عالمِ اضطراب میں کہہ اُٹھے کہ تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہو رہا۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنیوالے ساٹھ فی صد شہریوں پر کیا قیامت گزر رہی ہو گی؟ معلوم نہیں یہ حکومت کی تباہ کُن معاشی پالیسی کا کیادھرا ہے یا ہمارے کاروباری طبقوں میں رچی بسی حرص و ہوس کا شاخسانہ ہے کہ روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں اور ملاوٹ کے باعث طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مکانات کی قیمتیں بلامبالغہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اچھی تعلیم کا حصول روز بروز ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کوویڈ19 نے یہ تکلیف دہ حقیقت بھی اجاگر کر دی ہے کہ ہمارا نظامِ صحت بھی جان لیوا ہے۔ حکومت کا ڈلیوری سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے تو نہایت جابرانہ طورطریقے استعمال کرتے ہیں، مگر عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا اُنہیں ذرہ برابر خیال نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو پُرفریب اور دِلوں کو لبھانے والے نعروں سے دھوکا دیتے اور ووٹ لیتے رہیں گے، مگر اسمارٹ ٹیلی فون کا جو انقلاب آیا ہے، اُس سے حکمرانوں کے مواخذے کا ماحول بن رہا ہے۔ اب اقتدار بتدریج پھولوں کے بجائے کانٹوں کی سیج بنتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ عمران خان لنگرخانوں اور پناہ گاہوں کی تعمیر اور زِیبائش پر توجہ دے رہے ہیں جو ایک قابلِ تحسین فلاحی تحریک ہے۔

آج عوام کے لیے جہاں روزگار کا حصول بڑا دُشوار ہے، وہاں شرافت سے زندگی بسر کرنا محال تر ہے۔ اداروں کی طرف سے آئین کی صریح خلاف ورزیوں نے بڑےبڑے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اِقتدار کی چھیناجھپٹی کا ایک تباہ کُن کھیل جاری ہے۔ اِس کھیل میں شہریوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور سیاسی اخلاقیات کے صبح وشام جنازے اُٹھ رہے ہیں۔ ٹی وی پر اخلاقیات کا درس ہمارے وزیراعظم بڑے خشوع و خضوع سے دیتے ہیں۔ حکومت کے ترجمان جو عوام کے ٹیکس پر پَل رہے ہیں، اُن کا کام صرف یہ ہے کہ اِس قدر بدزبانی سے کام لیا جائے کہ کسی ’دیدہ ور‘ کی بات نہ سنی جا سکے۔ فضول باتوں پر وقت ضائع کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ریل اور ہوائی جہاز کے حادثات سوہانِ روح بن گئے ہیں، سفر کے ذرائع غیرمحفوظ ہو چکے ہیں اور شہر کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ اب حکمرانوں کا عوامی مسائل سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ کراچی اور لاہور میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب میں جو کچھ ہوا، اُس نے حکمران جماعت کے زعمِ پارسائی کی قلعی کھول دی ہے۔ ہماری انتخابی تاریخ میں پہلی بار20 پریذائیڈنگ آفیسرز ووٹوں کے بیگز کے ساتھ اغوا کر لیے گئے۔ اِس پر چیف الیکشن کمشنر نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم صادر کر دیا۔ چند روز بعد سینیٹ کے انتخاب کے نتائج سے ایک زلزلہ آ گیا۔ پی ٹی آئی کے سولہ ارکانِ قومی اسمبلی نے غالباً اپنی قیادت سے اختلاف کی بنیاد پر پی ڈی ایم کے امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے۔ اِس پر وزیرِاعظم نے اعلان کیا کہ یہ سولہ ارکان بک گئے ہیں جو کڑی سزا کے مستحق ہیں، مگر دو روز بعد اُسی بکاؤمال سے اُنہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی اخلاقی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جو بیشتر سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں ایک لاحاصل عمل تھا۔ ستم یہ کہ اعتماد کا ووٹ لینے کی خرمستی میں پی ٹی آئی کے جیالے مسلم لیگ نون کے سینئر قائدین پر ٹوٹ پڑے جو پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اُنہوں نے خاتون کو بھی زدوکوب کیا جو ہماری معاشرتی قدروں کے منافی ہے۔ آج سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا معرکہ درپیش ہے۔ حکومت کی طرف سے موجودہ چیئرمین جناب صادق سنجرانی نامزد ہوئے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی ہیں جن کی سینیٹ میں اکثریت ہے۔ ووٹوں کی تعداد کے تناسب سے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی یقینی ہے، لیکن بڑے باپ کے بیٹے شبلی فراز، وفاقی وزیرِاطلاعات کا ارشاد ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنا امیدوار کامیاب کرا کے رہیں گے۔ اُن کا یہ اعلان اخلاقی معیار سے فروتر اور قابلِ مذمت ہے۔ آج ہمیں ماحولیاتی کثافت سے زیادہ اخلاق باختگی کے انتہائی سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ سیاست میں شفافیت اور اخلاقی شعور پیدا کرنے کے لیے ہمیں الیکشن کمیشن کو حقیقی معنوں میں پوری طرح مضبوط اور خودمختار بنانا ہو گا۔ چیف الیکشن کمشنر نے جس بلندہمتی اور بالغ نگاہی کا ثبوت دیا ہے، اس کی سول سوسائٹی کی طرف سے مکمل حمایت کی جانی چاہئے تاکہ انتظامیہ کو حد میں رکھا جا سکے اور اِنتخابات میں خلل ڈالنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جا سکیں۔ وزرائےکرام جو الیکشن کمیشن کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں، انہیں توہینِ عدالت کے نوٹس بھیجے جانے چاہئیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین